غزہ کی صورتحال ۔ اندیشے و امکانات حصہ دوم و آخر

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

البرٹ پائیک نے اپنے اطالوی الومیناتی ہم منصب  جو سی پی متزی نی  (Giuseppe Mazzini ) کو  اگست  1871 میں ایک خط لکھا تھا جس میں دنیا پر قبضے کی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا تھا ۔  جو سی پی متزی نی اطالیہ میں مافیا کا بانی اور گاڈ فادر تھا ۔ دیگر یہودیوں کی طرح یہ بھی صحافی اور مصنف تھا ۔ البرٹ پائیک کا مذکورہ خط  1977 تک برٹش لائبریری کی زینت تھا بعدازاں اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔ انٹرنیٹ پر برٹش لائبریری سےاس خط کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب وائرل ہے جس میں برٹش لائبریری نے ایسے کسی خط کے وجود سے انکار کیا ہے ۔ برٹش لائبریری سے پوچھے گئے اس سوال میں ایک جادوگری یہ دکھائی گئی ہے کہ خط کی تاریخ غلط درج کی گئی ہے جس کے جواب میں برٹش لائبریری نے معصومانہ جواب دیا ہے کہ اس تاریخ  کا ایسا کوئی  خط ان  کے پاس کبھی نہیں رہا ۔  

مذکورہ خط کے مطابق البرٹ پائیک نے بتایا ہے کہ  ون ورلڈ گورنمنٹ کے لیے ہم تین عالمی جنگیں برپا کریں گے ۔  روس میں زار کی حکومت کے خاتمے اور یہاں پر ملحدانہ اور مذہب مخالف کمیونزم کا قلعہ بنانے کے لیے پہلی جنگ عظیم برپا کی جائے گی ۔ اس کے لیے برطانیہ اور جرمن میں موجود الومیناتی  ایجنٹ ان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اس حد تک پیدا کریں گے کہ جنگ کا ماحول بنایا جاسکے ۔ جنگ کے اختتام پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوگی جو دیگر ممالک میں عدم استحکام  اورمذاہب کو کمزور کرنے  کے لیے استعمال کی جائے گی ۔

پائیک لکھتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم   کو برپا کرنے کے لیے فاشسٹوں اور سیاسی صہیونیوں کے درمیان اختلافات  پیدا کرکے انہیں  استعمال کیا  جائے گا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں نازی ازم کو تباہ کردیا جائے گا اور سیاسی صہیونیت کو اتنا مضبوط کیا جائے گا کہ فلسطین میں ایک خودمختار یہودی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جاسکے ۔  اسی جنگ کے دوران  بین الاقوامی کمیونزم کو بھی اتنا طاقتور بنایا جائے گا کہ وہ عیسائیت (بہ الفاظ دیگر  مذاہب ) کو توازن میں رکھ سکے ۔ ایسا اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک آخری سماجی تباہی کے لیے ہمیں   اس کی ضرورت نہ پڑے ۔

تیسری  اور آخری عالمی جنگ کے بارے میں البرٹ پائیک اپنے خط میں لکھتا ہے کہ اسے شروع کرنے کے لیے  سیاسی صہیونیت اور عالم اسلام کے مابین الومیناتی ایجنٹوں کے پیدا کردہ اختلافات کو استعمال کیا جائے گا ۔  اس جنگ کو اس انداز میں منظم کیا جائے گا کہ اسلامی دنیا  اور اسرائیل دونوں تباہ ہوجائیں ۔

اب ہم البرٹ پائیک کے خط کے مندرجات ، ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے نفاذ کی تاریخ ، ہیکل سلیمانی کے تیسرے معبد کی تعمیر کی کوششوں اور غزہ کی جنگ کے نقاط کو جوڑیں تو ایک واضح تصویر  دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ 2025 سے 2030 کے درمیان اس کا ڈھیلا ڈھالا نفاذ کردیا جائے گا جسے 2050 تک ایک سخت کلیاتی ریاست میں تبدیل کردیا جائے گا ۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے سیاسی دارالحکومت آستانہ کے بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ یہ 2030 تک مکمل ہوجائے گا ۔

تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سرخ بچھڑے سمیت سارے ہی اسباب مہیا ہوگئے ہیں اور بس اب اس کے  لیے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار ہے ۔ غزہ کی جنگ کو دیکھیں تو بہت سارے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات غزہ کی جنگ کا ختم نہ ہونا ہے ۔ دوبارہ سے اس بات کو دیکھیں کہ غزہ میں ادویات نہیں ہیں ، غذا نہیں ہے حتیٰ کہ پینے کا پانی بھی نہیں ہے مگر جو چیز وافر مقدار میں اور لاانتہا دستیاب ہے ، وہ ہے اسلحہ اور گولا بارود ۔

اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ امریکا کو افغانستان میں گولا بارود کی قلت کے سبب اسے  پاکستان سے لینا پڑا تھا ۔ یوکرین میں کھلی رسد کے باوجود یوکرین کو اس کی قلت کا سامنا رہتا ہے تو پھر یہ غزا میں کیسے وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب حماس خود اپنی فیکٹری میں بنارہی ہے ۔ ایک لمحے کو یہ مان لیتے ہیں مگر اس کے لیے خام مال کی بھی تو ضرورت پڑے گی ، یہ سب کیسے اس کے پاس پہنچ رہا ہے ۔ اسرائیل ، امریکا ، یورپ کسی ایک نے بھی ایک دفعہ فارنزک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ حماس کے پاس موجود اسلحہ کہاں سے لایا گیا ہے ۔ سات اکتوبر کے بعد امریکی سینیٹ میں اس بارے میں ایک کمزور سی آواز ابھری تھی جسے دبا دیا گیا ۔

اب اس برس یا آئندہ برس موسم گرما میں کوروناسے زیادہ خطرناک وائرس کی پیشگوئی دیکھیں اور اس کے نتیجے میں ممکنہ سخت ترین لاک ڈاؤن کو مد نظر رکھیں  تو البرٹ پائیک کے خط کے مندرجات کہیں سے بھی پاگل کی بڑ نہیں لگتے ۔

اس سب سے ہم یہ نتائج اخذ کرسکتے ہیں کہ غزہ کی جنگ بند نہیں ہوگی ، اس کا پھیلاؤ مزید ہوگا ،   اسرائیل کو زچ کر دیا جائے گا  اور نئی جغرافیائی حد بندیاں سامنے آئیں گی ، معاشی مندی کی ایک اور لہر سامنے آئے گی اور اسلامی ممالک میں عوامی بے چینی پیدا کرکے ان میں بھی جغرافیائی تبدیلیاں لائی جائیں گی ۔یہ جغرافیائی تبدیلیاں محض عالم اسلام یا اسرائیل تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک امریکا، روس ،  چین اور بھارت جیسے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے ۔

 یہ تو وہ نتائج ہیں جو اب تک ہم سمجھ سکتے ہیں ۔ نیو ورلڈ آرڈر کا نفاذ، پوری دنیا کو قابو میں کرنا ، آبادی میں  بڑی کمی ، تیسرے ہیکل کی تعمیر وغیرہ وغیرہ پہلے سے ہی کارڈز پر ہیں اور  ان میں اب تک تو  کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی  ہے ۔   اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

غزہ کی صورتحال ۔ اندیشے و امکانات حصہ اول

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

غزہ لہو لہو ہے ۔ سات اکتوبر سے اب تک کی جو صورتحال ہے ، اس کے بعد سے ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔  ان لوگوں کے علاوہ  جن لوگوں نے یہ جنگی تھیٹر سجایا ہے،کسی بھی شخص کے لیے یہ بتانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ کیا ہوگا تاہم موجود شواہد کی بناء پر امکانات پر ضرور بات کی جاسکتی ہے ۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قبل کہ غزہ کی جاری صورتحال کے نتائج کیا ہوں گے ۔ ایک اور لفظ صہیون سے آگاہی کہ اس بارے میں جاننے کے لیے دوستوں کا اصرار ہے ۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ صہیونی کون ہیں، کیا صہیونی اور یہودی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا یہ الگ الگ ہیں ۔  

یہودیوں کی نسلی اور مسلکی تقسیم   کے بارے میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ نہیں تو بہت مختصر بھی نہیں ، اپنے گزشتہ آرٹیکل  کی سیریز "یہودیوں کا تانا بانا” کے عنوان سے لکھ چکا ہوں  ۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ صہیونی کون ہیں ، ان کے عزائم کیا ہیں اور کیا یہ یہودی ہوتے ہیں ، اگر یہودی ہوتے ہیں تو کیا سارے یہودی صہیونی ہوتے ہیں اور کیا غیر یہودی بھی صہیونی ہوتے ہیں یا نہیں ۔  

سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ صہیونی ہیں کون ، صہیون دراصل ایک پہاڑی کا نام ہے جو بیت المقدس   میں دیوار براق یا دیوار گریہ سے 850 میٹر دور جنوب مغرب میں مزار داؤد کے پاس واقع ہے ۔ یہیں پر  عبرانی بائبل کے مطابق  صہیون نام کا  شہر داؤد  واقع تھا ۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہیں پر ہیکل سلیمانی قائم تھا ۔ اسی پہاڑی کو Mount Temple  بھی کہا جاتا ہے ۔ تاہم اب لفظ صہیون کا مطلب بدل چکا ہے ۔ پہلے صہیون کو صرف ایک پہاڑی سے ہٹا کر پورے بیت المقدس کے لیے استعمال کیا جانے لگا ، پھر پورے یروشلم کے لیے ، پھر پورے اسرائیل کے لیے اور اب اس لفظ کو Greater Israel  یا وسیع تر اسرائیل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

یہودی مملکت اسرائیل کے قیام کے لیے اس لفظ کا استعمال پہلی مرتبہ آسٹریا کے یہودی صحافی اور مصنف تھیوڈور ہرزل نے 1896 میں اپنے ایک پمفلٹ "یہودیوں کی ریاست ” میں کیا ۔ 1897 میں ہرزل کی کوششوں سے سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی یہودی کانگریس منعقد ہوئی جس میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے لیے صہیونی تحریک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ابتدا میں جس طرح صہیون محض ایک پہاڑی کا نام تھا ، اسی طرح سے صہیونی بھی صرف اور صرف یہودی  ہوا کرتے تھے ۔ مگر اب صہیونی ہر وہ شخص ہے جو وسیع تر اسرائیل کے قیام سے اتفاق کرتا ہو اور اس کے لیے کوششیں بھی کرتا ہو ۔ یعنی  عیسائی ، مسلمان ، بدھ   ، ہندو وغیرہ وغیرہ  بھی  صہیونی  ہوسکتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح وہ یہودی جو وسیع تر اسرائیل کا مخالف ہے ، صہیونی نہیں کہلائے گا ۔

غزہ کی صورتحال کے بعد کے معاملات کو اگر دیکھیں تو  پتا چلتا ہے کہ  امریکا اور یورپ میں بہت سارے یہودیوں نے اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مخالف کی ہے  اور  اس کے لیے مظاہرے  بھی کیے ہیں ۔ اس طرح یہ یہودی صہیونی نہیں ہیں ۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کے حکمرانوں نے اسرائیل کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس کے لیے مادی امداد بھی فراہم کی ہے ۔ یہ سارے لوگ عیسائی ہونے کے باوجود صہیونی ہیں ۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہی اپریل 2020 میں ایک شخص مولانا خلیل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک خیمہ لگا کر اسرائیل کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے خیمے پر اسرائیل کا پرچم آویزاں تھا اور وہ اپنا نیا نام ڈیوڈ ایریل بتاتا تھا ۔ یہ ڈیوڈ ایریل ایک مسلم صہیونی تھا ۔ عالمی صہیونی تحریک اب بھی قائم ہے اور گریٹر اسرائیل کے لیے سرگرم عمل ہے ۔

صہیون اور صہیونیت کے بارے میں جاننے کے بعد ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ غزہ کی صورتحال کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔

میرا موضوع صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے نیو ورلڈ آرڈر یا ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام ۔ میرے تمام آرٹیکل یا کالم اور کتب  اسی پس منظر میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کتاب جنگوں کے سوداگر میں اس حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے لیے شیطانی پیروکار یہودی  پہلے بینک آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لائے اور بعدازاں انقلابات فرانس ، روس وغیرہ وغیرہ اور امریکا میں سول وار کے ذریعے کس طرح سے دنیا بھر پر قبضہ مکمل کیا ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم انہوں نے کس طرح برپا کیں اور اس کے نتیجے میں کیا کیا مطلوبہ اہداف حاصل کیے ۔ 

یہ سب کچھ جو ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے لیے شیطان کے پیروکاروں نے کیا ، اس کے منصوبہ ساز البرٹ پائک نے انیسویں صدی سے ہی اس پر  کام شروع کردیا تھا ۔ البرٹ پائیک رپورٹر ، ایڈیٹر  ، فوجی ، وکیل، شعلہ بیان مقرر ، قانون ساز ،  سب کچھ تھا ۔ وہ  فری میسن کی سب سے مضبوط شاخ  Scottish Rite of Freemasonry Southern Jurisdiction  کا  1859 سے   امریکا میں  گرینڈ ماسٹر تھا ۔   اس کی کتاب Morals and Dogma    فری میسنری کی بائبل کا درجہ رکھتی ہے  ۔ یہ کتاب دراصل البرٹ پائک کے خطبات پر مشتمل ہے جو پہلی مرتبہ 1871 میں امریکا میں شائع ہوئی تھی ۔  یہ کتاب امریکا میں اسکاٹش  فری میسنری  کی شاخ سپریم کونسل the supreme council, thirty third degree  کے تحت شائع کی گئی تھی ۔

البرٹ پائیک صرف فری میسن کے سب سے اعلیٰ درجے (33ویں ) درجے پر ہی فائز نہیں تھا بلکہ وہ الومیناتی امریکا کا بھی سربراہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ البرٹ پائیک نے جو منصوبہ 1871 میں پیش کیا تھا ، آج کے دور میں ہونے والے واقعات اس  کے ہی مطابق  ہیں ۔

البرٹ پائیک کے منصوبوں کی روشنی میں آج کے ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ غزہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی کوششوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور  اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

یہودیوں کا تانا بانا حصہ پنجم

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

جب سے عیسائیت اقتدار میں آئی ، اس دن سے لے کر سو برس قبل تک یہودی عیسائیوں کے ہاتھوں دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوتے رہے ۔ تمام ہی  یورپی ممالک  اور روس میں انہیں کیمپوں میں تنگ و تاریک  احاطوں  میں رکھا گیا ۔ جہاں پر یہ کابک نما کوٹھریوں میں رہتے تھے ۔ ان کے بچوں کو کھیلنے کے لیے نہ  تو جگہ میسر تھی اور نہ ہی سورج کی روشنی ۔ پورے یورپ سے انہیں یکے بعد دیگرے  ملک بدر کردیا گیا ۔ اسے Great Eviction  یا عظیم انخلاء کہا جاتا ہے ۔ اگر انہیں کہیں پناہ ملی تو وہ مسلمانوں کی عثمانی سلطنت تھی ۔

یہودیوں نے عیسائیوں کی جانب سے اپنے اوپر کیے جانے والے مظالم کا جواز یہ پیش کیا کہ عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ  ؑ کو صلیب چڑھانے کی سازش یہودیوں کی تھی ۔ بات تو یہ درست ہے مگر بات صرف اتنی بھی نہیں ہے ۔ یہودی من حیث القوم ایک سازشی اور فتنہ پرور قوم ہے ۔ یہ وہ محسن کش قوم ہے کہ جہاں بھی رہی ،ا س نے اپنے میزبانوں کو ہی ڈسا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بطور پوری قوم یورپ سے دیس نکالا بھی ملتا رہا اور انہیں بندوبستی احاطوں تک بھی محدود رکھا گیا ۔ میں نے اس کے بارے میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر کے پہلے باب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ۔

” ان یہودیوں کی دیگر اقوام کے خلاف سازشیں یہاں تک پہنچیں کہ یورپی حکومتوں کو ان کے خلاف اقدامات کرنا پڑے۔ 1215 میں رومن کیتھولک نظام نے لےٹیران کونسل Lateran Council   کا چوتھا اجلاس طلب کیا جس میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور جارحیت پر غور کیا گیا۔ (اس دور تک یورپی سلطنتوں میں مذہبی پیشوا اور تاجداروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔)  اس موقع پر کیتھولک پیشواوں نے سود کے خاتمہ اور یہودی سودخوروں کے خلاف کارروائی پر زور دیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہودی اپنے کوارٹروں سے باہر نہیں نکلیں گے اور عیسائیوں کو ملازم نہیں رکھیں گے۔ عیسائیوں کی یہودیوں کی ملازمت پر اس لیے  پابندی عائد کی گئی تھی کہ یہودی جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عیسائیوں کو فرنٹ مین کے طور پر ملازم رکھتے تھے اور خود پس منظر میں رہتے تھے اس طرح ان کی تمام بے رحمانہ کارروائیوں کا سارا الزام عیسائیوں پر آتا تھا۔ مزید یہ کہ وہ عیسائی خواتین کو ملازم رکھنے کے بعد ان کی آبرو ریزی کرتے تھے اور انہیں   قحبہ گری کے لیے  مجبور کرتے تھے۔ بعد میں یہی خواتین رشوت کے طور پر سرکاری عمال کو پیش کی جاتی تھیں تاکہ یہودیوں کی تمام ناجائز سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کیتھولک مذہبی پیشواوں کو حکومت کی بھرپور حمایت حاصل تھی وہ یہودی ساہوکاروں پر ان قوانین کا بعینہ نفاذ نہ کرسکے۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں یہودیوں  کی کلیسا کے خلاف نفرت بڑھتی گئی۔ اس نے کلیسا  کو ریاست سے الگ کرنے کے لیے  سیکولر ازم کا نعرہ نکالا اور اسے مقبول بنانے کے لیے  اپنی مہم تیز کردی۔

 1253میں فرانسیسی حکومت نے یہودیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا کیوں کہ وہ ریاستی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کررہے تھے۔ اکثر یہودی فرانس سے بے دخل ہونے کے بعد انگلینڈ آگئے۔ 1255 تک ان یہودی ساہوکاروں نے اکثر کلیسائی اور ریاستی اہلکاروں پر اپنا اثر ورسوخ قائم کرلیا۔ 1255 میں لنکن میں سینٹ ہیو St. Hugh میں ہونے والے سفاکانہ قتل کی شاہ ہنری سوئم King Henry IIIنے یہودیوں کے خلاف تحقیقات کرائیں جس میں اٹھارہ یہودی اکابرین اور ان کے مذہبی پیشوا ملوث پائے گئے۔ ان پر مقدمہ چلا اور ان کو موت کی سزا دی گئی۔ 1272 میں شاہ ہنری سوم کا انتقال ہوگیا اور ایڈورڈ اول Edward Iنے تخت سنبھالا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہودی لازمی طور پر سود کو ترک کردیں۔ 1275 میں اس نے پارلیمنٹ سے جیوری کے قوانین کو منظور کروایا۔ یہ قوانین اس طرح بنائے گئے تھے کہ سودخور یہودیوں کی کارروائیوں کو جو وہ عیسائی اور یہودی قرضداروں کے ساتھ سود کی وصولی کے لیے  کررہے تھے کو روک سکیں۔ یہ قوانین برطانوی تاریخ میں شاید اولین قوانین تھے جس میں پارلیمنٹ میں عوام نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان قوانین کو یہودی مخالف اس لیے  نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں قانون کی پابندی کرنے والے یہودیوں کو تحفظ دیا گیا تھا ۔

قوانین کی مسلسل  خلاف ورزی پر  1290 میں شاہ ایڈورڈ نے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا جس کے تحت تمام یہودیوں کو انگلینڈ سے جلاوطن کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ یہ اس دور کا نقطہ آغاز تھا جس کو تاریخ داں عظیم انخلاء The Great Eviction   کے نام سے پکارتے ہیں۔ شاہ ایڈورڈ اول کے اس اقدام کی پیروی دیگر یورپی فرمانرواوں نے بھی شروع کردی۔

1306صدی عیسوی میں فرانس نے تمام یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ 1348 میں سیکسونی نے اس کی پیروی کی۔ 1360 میں ہنگری نے، 1370 میں بیلجیئم نے، 1380 میں سلاویکیہ نے 1420 میں آسٹریا نے، 1444 میں نیدرلینڈ نے اور 1492 صدی عیسوی میں اسپین نے تمام یہودیوں کو ملک بدر کردیا۔

 1495 صدی عیسوی میں لتھوانیا نے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔ 1498 میں پرتگال نے، 1540 میں اٹلی نے اور 1551 صدی عیسوی میں باویریا نے یہودیوں کو ملک بدر کردیا۔ اس عظیم انخلاء کے دوران دولتمند اور بااثر یہودی بوراڈیوکس، ایوگنان، شمالی اٹلی، مارسائل اوردیگر کیتھولک ریاستوں میں چھپنے میں کامیاب ہوگئے مگر جیسا کہ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا میں مذکور ہے کہ "عام یہودیوں کو صرف اور صرف مشرق میں پولینڈ اور ترک سلطنت میں پناہ ملی۔” ان یہودیوں کا کچھ حصہ مغربی یورپ میں ہی رک کر ابتلاءو آزمائش کا سامنا کرتا رہا حتٰی کہ ان کی نشاة ثانیہ کا دور آگیا اور یورپ میں "تاریک دور” کا آغاز ہوا۔

جب یورپ میں عظیم انخلاءکا عمل جاری تھا تو مشرقی یورپ میں رہنے والے یہودی بندوبستی احاطوں میں رہتے تھے۔ یہ احاطے مغربی روس کی سرحد سے شروع ہو کر شمال میں بحیرہ بالٹک تک اور جنوب میں بحیرہ اسود تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں پر رہنے والے زیادہ تر یہودی خازار نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خازار یہودی اپنی سفاکانہ ثقافت اور مالی معاملات میں ظالمانہ بے رحمی کے لیے  مشہور تھے۔ ان کے نزدیک اخلاقیات بے معنی لفظ تھا۔

بعدازاں  یہودیوں کی مخفی واپسی کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت یقینی بنایا گیا ۔ کیونکہ یہ واپسی غیرقانونی تھی اس لیے  اس کے لیے  زیرزمین سرگرمیوں کا ایک پورا نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔ چونکہ یہ تمام یہودی جو یورپی ممالک میں خفیہ طور پر داخل ہوئے تھے اور ان شہروں کے زیرزمین نیٹ ورک کا حصہ تھے، غیر قانونی ہونے کی بناء پر قانونی روزگار حاصل نہیں کرسکتے ھے۔ انہیں فنڈز کی فراہمی کے لیے بلیک منی مارکیٹ کا نظام تشکیل دیا گیا۔ یہ تمام یہودی ہر قسم کے غیر قانونی کام اور تجارت میں ملوث ہوگئے۔ ہمیشہ کی طرح جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کا اصول یہاں پربھی اپنایا گیا اور وہ ساہوکار جو اس تمام زیر زمین سرگرمیوں کو کنٹرول کررہے تھے وہ ہمیشہ خفیہ رہے۔

ان یہودیوں کی ان ممالک سے جہاں سے ان کو بے دخل کیا گیا تھا خفیہ واپسی کا منصوبہ کس قدر مکمل تھا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہودی انگلینڈ میں 1600 صدی عیسوی میں اور ہنگری میں 1500 میں واپس آچکے تھے۔ ہنگری سے ان کو 1582 میں دوبارہ بےدخل کردیا گیا۔ سلاویکیہ میں یہ 1562 میں واپس پہنچے اور 1744 میں دوبارہ بے دخل کردیے گئے۔ لتھوانیا میں یہ واپس 1700صدی عیسوی میں پہنچے۔ "

اس پس منظر کے بعد اس سوال پر گفتگو کرتے ہیں یہودیوں پر مظالم تو عیسائیوں نے کیے ہیں تو پھر مسلمان یہودیوں کا نشانہ کیوں اور عیسائی ان یہودیوں کے مددگار کیوں ؟ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

یہودیوں کا تانا بانا حصہ چہارم

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

یہودیوں میں نسلی تقسیم کی بنیاد پر صرف یہی تین گروہ نہیں ہیں   مگر بڑے گروہ یا قابل ذکر یہی ہیں ۔ جس میں اشکنازی آج کل قوت میں ہیں  اور یہودیوں اور اسرائیل کی ڈرائیونگ سیٹ ان ہی  کے پاس  ہے ۔ یوں سمجھ لیں کہ خازارز یا تاتاری ہی دنیا کو چلا رہے ہیں ۔ مزید  گفتگو سے قبل ایک چھوٹی سی وضاحت ۔ دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ یہودی تبلیغی مذہب نہیں ہے ۔ ان کے ہاں وہی شخص یہودی ہوسکتا ہے جس کی ماں یہودی ہو  تو پھر یہ خازارز   نے کس  طرح سے یہودی  مذہب اختیار کرلیا ۔

یہ ایک طرح کی غلط فہمی ہے جس پر ہمارے ہاں ہر شخص کو بھرپور یقین ہے کہ کوئی شخص یہودی مذہب اختیار نہیں کرسکتا ہے ۔ کچھ ایسی ہی غلط فہمی آغا خانی مذہب کے بارے میں بھی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہودی اور آغا خانی مذاہب نے اپنے پیروکاروں  میں اضافے کو انتہائی  regulate   کر رکھا ہے اور وہ ہر کس و ناکس کو اپنی برادری میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے  ۔ مگر جہاں پر وہ ضروری سمجھتے ہیں ، وہاں پر وہ اپنے مذہب میں داخلے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ۔ اسے اس طرح سے سمجھیں کہ آغا خان کی پوری دلچسپی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہے ۔ وہ وہاں پر اپنی ریاست کا قیام چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اس نے ہنزہ میں ہر شخص کو آغا خانیت میں داخلے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی فوائد بھی پیش کیے  مگر ہنزہ کے علاوہ کسی اور کو وہ آغا خانیت میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے ۔ آج آپ کو پورے ہنزہ میں کسی  بھی مسلم مسلک کی ایک بھی  مسجد نہیں ملے گی ۔ نہ شیعہ کی اور نہ سنی کی اور نہ ہی کہیں سے اذان کی آواز سنائی دے گی مگر آپ کو ہر آبادی میں جماعت خانہ ضرور ملے گا ۔ ان کے  اہم قصبات کے نام ہی کریم آباد اور علی آباد ہیں ۔

 

کچھ یہی صورتحال یہودیت کے بارے میں ہے ۔ اسلام اور عیسائیت کی طرح ہر کسی کو ان کے مذاہب میں داخلے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس کا فیصلہ انتہائی بالائی سطح پر کیا جاتا ہے  کہ کس کو یہودیت اختیار کرنے کی اجازت دینی ہے اور کسے نہیں ۔ اور پھر جس طرح سے اسلام اور عیسائیت میں   کلمہ پڑھتے ہی یا baptise    ہوتے ہی بندہ مسلمان یا عیسائی ہو جاتا ہے ، یہودیت میں نہیں ہے بلکہ اسے باقاعدہ کورسز کروائے جاتے ہیں اور اس کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ، اس کے بعد اسے یہودیت اختیار کرنے کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ جس زمانے میں تاتاری  یہودیت قبول کررہے تھے ، اس زمانے میں ایسی کوئی شرط عاید نہیں تھی اور اسلام اور عیسائیت کی طرح کوئی بھی شخص فوری طور پر  یہودی مذہب  اختیار کرسکتا تھا ۔ بلکہ ایک زمانے میں تو اس بات پر فخر کیا جاتا تھا کہ کسی  دوسرے مذہب کا  کوئی شخص یہودی ہوگیا ۔ ان کی مقدس کتابوں میں ایک کتاب روت بھی ہے ۔ یہ عبرانی بائبل کا حصہ ہے ۔ روت ایک چھوٹی سی کتاب ہے جس میں ایک خاتون روت کا مثالی کردار پیش کیا گیا ہے ۔ یہ خاتون  بحیرہ مردار کے مشرق میں واقع علاقے موآب کی رہنے والی تھیں اور ایک یہودی خاندان میں شادی کرلینے کے باعث قوم یہود میں شامل ہوگئی تھیں ۔ انہوں نے اپنے پہلے خاوند کی وفات کے بعد اپنے ایک اور رشتہ دار بوعز سے شادی کرلی تھی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ یہ لڑکا حضرت داود کا دادا تھا ۔

 

یہودیوں کی نسلی و طبقاتی تقسیم تو گزشتہ ایک ہزار برس قبل  وجود میں آئی ۔ اس سے قبل تو یہ عرب اور شمالی افریقا کے ہی رہنے اور بسنے والے تھے تاہم ان کی مذہبی تقسیم انتہائی قدیم ہے ۔ مذہبی طور پر یہودیوں کے جتنے فرقے ہیں ، اتنے تو مسلمانوں میں بھی نہیں ہیں ۔ خود یہودیوں کا بطور پھبتی کہنا ہے کہ ان کا پہلا ہیکل تقریبا دو سو برس  تک قائم رہا اور دوسرا تقریبا چھ سو برس تک ۔ اگر تیسرا ہیکل بن بھی گیا تو چالیس برس سے زاید نہیں رہے گا اور یہودیوں کا کوئی نہ کوئی فرقہ ہی اس کی تباہی کا باعث بنے گا ۔

 

مذہبی طور پر یہودیوں کے دو بڑے فرقے ہیں ۔ ایک فریسی (Pharisees)  اور دوسرا صدوقی (Sadducees)   ۔ ایک تیسرا فرقہ اور بھی تھا جس کا نام ایس اینز (Essenes)  تھا ۔ یہ بحیرہ مردار کے ساتھ وادی قمران میں رہتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب  حضرت طالوت علیہ السلام کی قوم سدوم پر عذاب آیا تو یہ پوری قوم بھی بحیر ہ  مردار میں غرق ہوگئی ۔ 1947 میں  بحریرہ مردار کے کنارے چند اردنی چرواہوں کو ایک غار سے تورات ودیگر کتب اتفاقا دریافت ہو گئیں  جس سے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں ۔  تورات کی یہ کتب دستیاب قدیم ترین  کتب میں شمار کی جاتی ہیں ۔ یہ فرقہ قیامت پر اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔ یہودیوں میں اس وقت غالب فرقہ فریسی ہے ۔ جو روایات پر تشدد کی حد  تک یقین رکھتا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی انہوں نے  کھانے پر مدعو کیا تھا ۔ جب فریسیوں کی روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ نے کھانے سے قبل ہاتھ نہیں دھوئے تو انہوں نے اس کا سخت برا منایا تھا ۔ ان تین بڑے فرقوں کے علاوہ بھی سیکڑوں چھوٹے چھوٹے فرقے موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر فرقہ سامریہ محض آٹھ سو افراد پر مشتمل ہے ۔

 

طالبان ٹائپ کے متشدد فرقے بھی موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک لیو طہور کا گزشتہ دنوں بڑا شہرہ رہا ۔ یہ بچوں اور بچیوں کو زبردستی مدرسے ٹائپ جگہوں پربے انتہا حدود و قیود میں  رکھتے ہیں ، کم سنی میں ہی ان کی زبردستی شادیاں کردیتے ہیں ۔ ان بچوں کے ساتھ ربی جنسی زیادتیاں بھی کرتے ہیں ۔ امریکا میں شور مچنے اور سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اب یہ میکسیکو منتقل ہوگئے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ کوئی بھی مذہب ہو، ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ   ان کے مذہبی ٹھیکیدار وں کا پسندیدہ مشغلہ کمسن لڑکوں کے ساتھ   جنسی بدفعلی ہے  ۔ چاہے یہ مولوی ہوں ، ربی ہوں ، پادری ہوں یا پنڈت۔ اس کے لیے ان کے پاس تاویلیں بھی موجود ہوتی ہیں ۔

 

یہودی فرقے بہت طویل موضوع ہے ۔ چونکہ میرا موضوع یہودیت نہیں بلکہ یہودی ہیں ۔ اس لیے اس موضوع پر گفتگو کبھی اور آئندہ ۔ میں تو یہودیوں کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ یہ ایک متحد قوم نہیں ہے ۔ یہ فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہیں او ر نسلی طور پر بھی تقسیم ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ ایک بیمار قوم ہے ۔   یہاں پر منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان میں اتنی تقسیم در تقسیم ہے اور یہ ایک دوسرے کے خون کے اتنے پیاسے ہیں تو اسرائیل میں کیوں کر متحد ہیں ۔

 

گزشتہ دو ہزار برس کی یہودی تاریخ پڑھ لیں ۔ یہ ایک راندہ درگاہ قوم ہے ۔ ان پر جو بھی مظالم ہوئے ، وہ عیسائیوں نے کیے ۔مسلمانوں نے تو ہمیشہ انہیں عیسائیوں کے مظالم سے بچاو کےلیے چھتری فراہم کی اور انہیں تحفظ دیا ۔  یہاں پر یہ  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہیں انتقام تو عیسائیوں سے لینا چاہیے ، تو پھر مسلمان ان کا نشانہ کیوں ؟

 

دنیا بھر میں اس وقت مسلمان شدید ابتلاء کا شکار ہیں ۔ اور اس کے  ذمہ دار یہودی ذہن کے ساتھ ساتھ عیسائی ممالک ہیں ۔ یہاں پر تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیسائی آخر کیوں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کررہے ہیں ۔ ان تمام سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

یہودیوں کا تانا بانا حصہ سوم

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

 یہودیوں  کی جدید تاریخ میں اشکنازیوں کا کردار اہم ترین ہے ۔ اشکنازیوں نے ہی سازش کرکے   سب سے پہلے  بینک آف انگلینڈ  قائم کیا   اور پھر اس  کے ذریعے انقلابات اور جنگوں کا جال بچھا کر   پوری دنیا پر  قبضہ کیا ۔ فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا ، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ   ، اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کا قیام  ، انقلاب فرانس ، انقلاب روس اور امریکا میں سول وار سمیت تمام کارنامے ان ہی اشکنازیوں کے ہیں ۔ اشکنازیوں کی تشکیل میں اہم ترین کردار خازارز  (Khazars)   کا ہے ۔ خازارز وسط ایشیا کے رہنے والے تاتار تھے ۔ دیگر منگولوں کی طرح ان  کا مذہب بھی  تنگری (Tengrism )    تھا ۔ یہ نیم خانہ بدوش قبائل تھے ۔ حالات سے تنگ آ کر آٹھویں صدی عیسوی میں انہوں نے مشرقی  یورپ کی طرف سفر شروع کیا ۔ یہ نقل مکانی  دنیا کی طویل ترین مسافت پر مبنی ہے  جو شمالی چین سے شروع ہوکر وسطی یورپ تک پہنچی ۔ خانہ بدوشوں منگولوں نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر کیا اور اپنی بادشاہتیں قائم کیں ۔ تاہم اپنی کوئی تہذیب نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہر سامنے والے کا   مذہب اختیار کیا اور ہر مذہب کا ہر مسلک بھی اختیار کیا ۔ انہوں نے  اسلام ، یہودیت  ، عیسائیت ، کنفیو شیس ازم اور کمیونزم بھی   اختیار کیا ۔ مسلمان ہونے کے بعد  یہ کٹر سنی بھی ہوئے اور شیعہ بھی ۔ چین کے ہن (Hun )  یہی منگول ہیں ۔ ترکی کے سلجوق ، تیمور لنگ ، برصغیر کی مغل سلطنت یہی منگول تھے تو افغانستان کےشیعہ  ہزارہ بھی یہی منگول ہیں ۔

وسط ایشیا سے سفر کرتے ہوئے جب یہ خازار یوکرین کی سرحد پر پہنچے اور  یہاں قیام کے دوران  انہیں سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کا پیش آیا۔ ایک طرف بازنطینی عیسائی حکومت تھی تو دوسری طرف مسلم عباسی حکومت تھی ۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر مسلسل حملہ آور تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ یہودی سب سے زیادہ مزے میں ہیں کہ ان کے دونوں سے دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ ان سے کاروباری معاملات کے ذریعے دونوں طرف سے مال سمیٹ رہے ہیں ۔ اسے دیکھ کر یہ خازار بھی یہودی ہوگئے اور پھر انہوں نے یہاں پر کاروبار میں اتنا عروج حاصل کیا کہ خازاریہ سلطنت وجود میں آگئی جو تیرہویں صدی تک قائم رہی ۔ خازاریہ  سلطنت روس کے یورپی حصے ، جنوبی یوکرین  ، کریمیا اور قازقستان پر مشتمل تھی ۔  خازاریہ سلطنت ایک کاروباری مملکت تھی جو مشرق و مغرب سے تجارت کے ذریعے خوب دولت کما رہی تھی ۔ چونکہ نہ یہ عیسائی تھے اور نہ مسلمان ،ا س لیے غیر جانبداری کا لیبل لگا کر خوب مزے کررہے تھے ۔ یہیں سے یہ خازار پہلے پولینڈ اور پھر جرمن میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد یہ فرانس اور برطانیہ پہنچے اور پھر بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا پر چھا گئے ۔

اس وقت دنیا پر حکمراں خاندان روتھس شیلڈ ہے ۔ اسی خاندان نے 1948 سے قبل ہی فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں بسانی شروع کردی تھیں ۔ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے پیچھے بھی یہی خاندان تھا ۔ یہ سب خازار ہیں ۔ آپ کسی بھی قابل ذکر اشکنازی خاندان  کی تاریخ کھنگالیں ، اس کا  ماضی کا تعلق  جرمنی سے ضرور نکلے گا ۔ ان سب  کا یہودیت سے تو ضرور تعلق ہے مگر بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

چونکہ ان خازارز کا قلبی تعلق یروشلم سے وہ نہیں ہے جو عربی یہودیوں یا مزراہیوں کا ہے تو ان  کے معاملات بھی مختلف ہیں ۔    خازاریہ کے خاتمے کے بعد یہ منگول یہودی یورپ اور رو س میں رہ رہے تھے ۔ ان کی فطرت میں اپنی میزبان حکومت کے خلاف سازشیں کرنا تھا جس کی وجہ سے ہر جگہ انہیں ایک مخصوص باڑے تک محدود کردیا گیا ۔ ان لوگوں نے اور ان کے آباء و اجداد نے نہ تو کبھی فلسطین کی شکل دیکھی تھی اور نہ ہی   انہیں وہاں کا کچھ اندازہ تھا ۔ ان کے ربی انہیں جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر ان کا مورال بلند رکھتے کہ تم اللہ کی پسندیدہ اور چنیدہ قوم ہو ۔ جلد ہی اللہ کی مدد آن پہنچے گی اور تم پھر سے دنیا کے حکمراں ہوگے ۔ یہ یروشلم کے بارے میں گیت گاتے جس میں آبشاروں ، باغات اور کھیتوں کھلیانوں کا رومان آمیز تذکرہ ہوتا ۔ یہ گیت ان کے دلوں کو مقناطیسی قوت سے جکڑتے اور انہیں اڑ کر فلسطین پہنچنے کی مہمیز دیتے ۔ اور جب یہ کسی طرح یروشلم کی یاترا کو نکلتے اور راستے کی مشکلات و صعوبتیں اٹھاتے ہوئے فلسطین پہنچتے تو  جھلستی ہوئی زمین ان کے خواب ریزہ ریزہ کردیتی ۔ ربیوں کے سنائے ہوئے گیت سن کر وہ سمجھتے کہ فلسطین کے پہاڑوں میں جنت پوشیدہ ہے ۔ لیکن جب وہ ان خشک چٹیل پہاڑوں پر مارے مارے پھرتے ، مقدس اردن ، کوہ موریا، یروشلم میں ہیکل کا مقام  نبیوں کے مزارات ، صہیون کا دروازہ اور حضرت سلیمان کی نہر وغیرہ وغیرہ دیکھتے  تو ان کے خواب دھجیاں بن کر بکھر جاتے ۔ ان کے خوابوں کے برعکس یروشلم عملی طور پر بھکاریوں ، کوڑھیوں ، معذوروں اور میلے کچیلے بچوں کی سرزمین تھا۔ اس سے تو یورپ و روس کے باڑوں کی تنگ و تاریک گلیاں اور چھوٹے چھوٹے دڑبے  ہی بہتر تھے ۔

جب یہ ربیوں کو آکر بے نقط سناتے تو ربی انہیں دلاسے دیتے کہ ہم داود و سلیمان کی اولاد ہیں ۔ یہ ویرانی ہمیں دھوکا نہیں دے سکتی ، ہم اسے یہود کا وطن بنائیں گے اور صحراوں کو گلزار کردیں گے ۔

یہاں پر ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ جب خازار بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں تو پھر انہیں گم گشتہ ارض فلسطین کی کیا فکر ہے ۔ یہ تو ان کا خواب ہے جو یہاں سے بے دخل کیے گئے ۔ اس کے جواب میں خازار یہ کہتے ہیں کہ یہودیت اختیار کرنے کے بعد ا ب وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ یہ سوال بار بار اٹھنے کے بعد اب اشکنازیوں  نے تاریخ کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم  لوگ منگول نہیں ہیں بلکہ عرب اور شمالی افریقا سے مشرقی یورپ گئے تھے ۔ پھر وہاں سے جرمنی اور فرانس و برطانیہ پہنچے ۔

یہودیوں کی کہانی جاری ہے ۔ بقیہ گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

یہودیوں کا تانا بانا حصہ دوم

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

اصل یہودی  تو لبنان ، مصر  و شام وغیرہ کے رہنے والے تھے ۔ اشکنازی ( قدیم عبرانی میں جرمن )  اور سفاردی (قدیم عبرانی میں ہسپانیہ ) تو وہ یہودی ہیں  جنہوں نے بعد میں یہودی مذہب اختیار کیا تھا ۔ لبنان و مصر کے رہنے والے اصل یہودیوں کو پہلے عرب یہودی یا Hebrew  کہا جاتا تھا تاہم اب ان  کا نام تبدیل کرکے مزراہی Mizrahi   کردیا گیا ہے ۔ مزراہی یا عربی یہودی مزاجی اور ثقافتی طور پر اشکنازی اور سفاردی یہودیوں سے یکسر مختلف ہیں ۔ یہ عمومی طور پر نرم خو ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک اپنے آبائی پیشے یعنی زراعت اور چرواہے سے منسلک تھے ۔ موجودہ یہودی تشکیل میں ان کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اور عملی طور پر یہ اقلیت میں ڈھل چکے ہیں ۔

عمومی طور پر یہودیوں کے یہ تینوں نسلی طبقے ایک دوسرے میں شادی بیاہ اور دیگر تعلقات سے گریز کرتے رہے ہیں ۔ ان کی ترجیح آپس میں ہی شادی بیاہ رہی ہے ۔ تاہم اب اس میں  شعوری طور پر تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اشکنازی ، سفاردی اور مزراہیوں میں آپس میں شادی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔ جس کی وجہ سے ان تینوں گروپوں میں اختلافات مرنے مارنے کی سطح سے گر کر قبولیت کے درجے پر آتے جارہے ہیں ۔ ان گروپوں میں آپس میں  شادیاں کروانے کی  وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں کچھ ایسی بیماریاں پھیل گئی ہیں جو دیگر مذاہب کے لوگوں میں نہیں ہیں ۔

ان میں سرفہرست  گوشے  (Gaucher)  کی بیماری ہے ۔ یہ ایک جینیاتی بیماری  ہے ۔ اس کی تین اقسام ہیں جن میں جگر درست طریقے سے کام نہیں کرتا ، ناک اور دیگر جگہوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اس میں اعصاب بھی درست طریقے سے کام نہیں کرتے ۔ دنیا بھر میں اس  کا تناسب نوزائیدہ بچوں میں 41 ہزار بچوں میں سے ایک ہے مگر اشکنازی یہودیوں میں یہ تناسب دس میں سے ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اس بیماری میں مبتلا ہے ۔

اشکنازی یہودیوں میں دوسری عام جینیاتی بیماری  Cystic Fibrosis  یعنی رسولیوں کا بننا ہے ۔ اس میں ان کے نظام ہاضمہ اور پھیپھڑوں میں بننے والا بلغم گاڑھا ہونا شروع ہوجاتا ہے جو دیگر اندرونی اعضا کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے ۔ اس کے دیگر  اثرات میں مردانہ بانجھ پن بھی شامل ہے ۔ یہ بیماری یہودیوں کی وجہ سے امریکا میں سفید فام جوڑوں میں عام بیماری تصور کی جاتی ہے جبکہ ایشیائی اور افریقی تارکین  وطن میں یہ بیماری نہ ہونے کے برابر ہے  ۔ اس کے باوجود امریکی  سفید فام آبادی میں اس کا تناسب  ساڑھے تین ہزار نوزائیدہ بچوں میں ایک ہے ۔  جبکہ اشکنازی یہودیوں میں اس کا تناسب 24 میں ایک ہے ۔یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 24 واں بچہ اس بیماری کا شکار ہے ۔

اشکنازی یہودیوں میں تیسری جینیاتی بیماری Tay-Sachs  ہے ۔ اس بیماری میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے سیل خرابی کا شکار ہونا  شروع ہوجاتے ہیں ۔ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے ۔ عمومی طور پر یہ بیماری عام نہیں ہے اور اس کے شکار بچے کا دنیا بھر میں تناسب دو لاکھ بچوں میں سے ایک ہے ۔ یعنی زندہ نوزائیدہ بچوں میں سے ہر دو لاکھ بچوںمیں سے  ایک بچہ اس کا شکار ہوتا ہے ۔ اشکنازی یہودیوں میں اس کا تناسب 27 میں سے ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر زندہ 27 واں بچہ اس بیماری کا شکار ہے ۔

اشکنازی یہودیوں میں چوتھی جینیاتی بیماری Familial Dysautonomia  ہے ۔ اس بیماری میں اعصابی نظام میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں اور یہ autonomic nervous system  میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس سے ان کے اعصابی نظام کے اس حصے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جو بلڈ پریشر ، دل کے دھڑکنے کی شرح  اور نظام ہاضمہ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ یہ بیماری اتنی کم ہے کہ اس کے اعداد و شمار  مجھے نہیں مل سکے کہ دنیا بھر میں نوزائیدہ بچوںمیں اس کی شرح کیا ہے مگر اشکنازی یہودیوں میں اس کی شرح 31 میں ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 31 واں زندہ بچہ اس بیماری کا شکار ہے ۔

اشکنازی یہودیوں میں پانچویں عام جینیاتی بیماری Spinal Muscular Atrophy ہے ۔ اس بیماری کی کئی اقسام ہیں جن میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود  اعصابی سیل جنہیں موٹر نیورون کہا جاتا ہے ، کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہی موٹر نیورون  سیل ہی عضلات کی حرکت کو کنٹرول کرتےہیں ۔ اس کا تناسب دنیا بھر میں دس ہزار نوزائیدہ  زندہ بچوں میں ایک ہے ۔ اشکنازی یہودیوں میں یہ تناسب 41 میں ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 41 واں زندہ بچہ اس جینیاتی بیماری کا شکار ہے ۔  

ایسا نہیں ہے کہ سفاردی یہودی یا مزراہی یہودی مکمل صحت مند ہیں اور انہیں کوئی جینیاتی بیماری ہے ہی نہیں تاہم ان میں یہ تناسب اتنا نہیں ہے ، جتنا اشکنازیوں میں ہے ۔ مثال کے طور پر Familial Mediterranean Fever  ہر دو سو میں سے ایک سفاردی یہودی کا اپنا شکار بنا لیتا ہے جبکہ ہر تین میں سے ایک  سفاردی یہودی اس کا کیریئر ہے ۔ G6PD Deficiency  کا شکار دنیا بھر میں چالیس کروڑ افراد ہیں مگر کرد سفاردی یہودیوں میں اس کا تناسب انتہائی زیادہ ہے اور 65 فیصد مرد کرد سفاردی یہودی اس کا شکار ہیں ۔ اسی طرح شمالی افریقا سے تعلق رکھنے  والے مزراہی یہودیوں  کی بڑی تعداد Glycogen Storage Disease type III  کا شکار ہے ۔ یہودیوں کے بڑے پیمانے پر جینیاتی بیماریوں کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں عرف عام میں Jewish Genetic Disorder  کے نام سے ہی معروف ہیں ۔  ایسا نہیں ہے کہ اشکنازی یہودی صرف ان ہی پانچ جینیاتی بیماریوں کا شکار ہیں یا سفاردی اور مزراہی مذکورہ بالا  ان خاص  بیماریوں کا کیریئر ہیں ۔ یہ فہرست خاصی طویل ہے ۔ چونکہ اس آرٹیکل کا یہ موضوع نہیں ہے ، اس لیے اس کا تذکرہ مختصر رکھا  ہے ۔

جدید دنیا کے یہودیوں کی  کہانی جاری ہے ۔ اس پر مزید گفتگو  آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

یہودیوں کا تانا بانا حصہ اول

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

اسرائیل کی غزہ میں تازہ جارحیت کے بعد اسرائیل اور یہودیوں میں ایک عام آدمی کی دلچسپی بڑھ گئی ہے ۔ اب لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔ ایک عام آدمی   اسرائیل کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا ہے  کہ یہ یہودیوں کی ایک  مملکت ہے ۔ ان کے  نزدیک اسرائیل میں یہودی رہتے ہیں جو ایک متحد قوم ہیں  اور یہ سارے  لوگ انتہائی مذہبی اور جنونی ہیں ۔ مگر ایسا ہے نہیں ۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ یہودی نہ تو ایک جان ہیں اور نہ ہی متحد ۔ ان کے درمیان تفریق و تقسیم ہے ۔ یہ تقسیم طبقاتی و مسلکی بنیادوں پر بھی ہے اور نسلی بنیادوں پر بھی ۔

پہلے یہودیوں کی تقسیم دیکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اسرائیلی مملکت کے تار و پور پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس امر پر غور کرتے ہیں کہ  پوری امت مسلمہ کی شدید ترین خواہش کے باوجود اب تک مسئلہ فلسطین حل ہو کر کیوں نہیں دے رہا ۔

سب سے پہلے یہودیوں کی نسلی تقسیم دیکھتے ہیں ۔ یہودی  فطری طور پر ایک سازشی قوم ہے ۔ یہ وہ سانپ ہیں جو انہیں دودھ پلاتا ہے ، یہ اسے ہی ڈستے ہیں ۔ اس کی بہترین مثال سلطنت عثمانیہ ہے ۔  پورے یورپ میں عیسائیوں نے ان کا ناطقہ بند کرکے رکھا ۔ انہیں عثمانی سلسطنت کے علاوہ کہیں جائے پناہ نہیں ملی مگر جیسے ہی انہیں موقع ملا تو انہوں نے سب سے پہلے سلطنت عثمانیہ ہی کا خاتمہ کیا ۔ اقوام کو قابو کرنے کے لیے منشیات ، الکحل ، فحاشی ، کرپشن اور پراپیگنڈہ ان کے آلات کار ہیں تو ممالک اور حکومتوں  کو کنٹرول کرنےکے لیے یہ قرض اور سود کا سہارا لیتے ہیں ۔ جو ان کے قابو میں نہ آئے ، اسے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھا دیتے ہیں یا پھر ان ملکوں میں خانہ جنگی پھوٹ پڑتی ہے ۔

اسپین میں جب مسلمانوں کا عروج تھا تو یہاں کے یہودی اپنی انفرادی خوشحالی کے باعث پولینڈ، جرمنی ، فرانس ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بسے یہودیوں کے مقابلے میں بہت آگے نکل گئے ۔ اسپین کے یہودیوں نے دیگر یہودیوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیا اور اپنے آپ کو سفاردیم اور  دیگر کو اشکنازی کہنا شروع  کردیا ۔ بظاہر یہ تقسیم  تہذیبی نظر آتی ہے مگر اس پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایسا  ہے نہیں جیسا کہ یہودی بتاتے ہیں ۔

یہودی چونکہ فطری طور پر سازشی ہیں ، اس لیے ان کے ہاں راز کی انتہائی اہمیت ہے ۔ ان کے ہاں کی مشہور کہاوت ہے کہ "راز کی بات کسی دوست سے بھی نہ کہو کہ اس کا کوئی اور دوست ہوگا اور اس دوست کا کوئی اور دوست "۔  یہودیوں نے گزشتہ آٹھ سو  برسوں میں یورپ  میں شدید ترین ابتلا کا دور دیکھا ہے ۔ چونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اس لیے اس ممکنہ ردعمل کے نتیجے میں کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تقسیم اختیار کی ۔اسپین کے یہودی چونکہ اس وقت یہودی قوم کی رہنمائی کررہے تھے اور انہوں نے پورے یورپ کو مطیع و فرمانبردار کرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھایا ہوا تھا اس لیے انہوں نے یہودیوں کے اس گروہ سے علیحدگی اختیار کی جس کی وفاداری مشتبہ ہوسکتی تھی اور وہ دباو میں آسکتے تھے ۔ دیکھنے میں اشکنازی اور سفاردی دونوں گروہوں میں ہر لحاظ سے بہت بڑا فرق ہے اور یہ دونوں شاخیں علیحدہ علیحدہ پروان چڑھیں  مگر  یہ دونوں گروہ  پس منظر میں ایک دوسرے کے سیاسی و مادی پشتیبان اس طرح سے رہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی ۔

سفاردیوں کی زبان ہسپانوی  اور لاطینی زبان کی آمیزش شدہ زبان ہے جو لادینو   (Ladino ) کہلاتی ہے ۔ اشکنازیوں کی زبان جرمن اور لاطینی زبانوں کا مرکب ہے جو ہدش  (Yidish)  کہلاتی ہے ۔اشکنازیوں اور سفاردیوں کی صرف زبان ہی مختلف نہیں ہے بلکہ بتدریج مسلک بھی مختلف ہوتے چلے گئے ، ان کا رہن سہن ، رسوم و رواج ، تہوار اور دیگر چیزیں بھی ایک دوسرے سے خاصی حد تک مختلف ہیں ۔

ابتدا میں سفاردی عروج پر تھے تو نامور مفکرین ، فلسفیوں ، اطباء ، تجار ، سیاست دانوں اور بااثر افراد کا تعلق ان سے ہی تھا ۔ بعد میں اشکنازیوں نے بھی ترقی شروع کی ۔ خاص طور سے روتھس شیلڈ خاندان کے عروج پر آنے کے بعد سے ۔ اس وقت یہودیوں پر  غالب گروہ اشکنازی ہی ہے اور اب وہ سفاردیوں کو ہیچ سمجھتے ہیں ۔

دیکھنے میں سفاردی اور اشکنازی ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں ۔ تاہم اگر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ این جی اوز کی طرح انہوں نے کام کی تقسیم مقرر کررکھی اور دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون بھی ۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہیں ۔

کام کی نئی تقسیم کے بعد سے سفاردی یہودی عالمی تحریکات اور سازشوں میں ملوث نہیں ہوتے ۔ یہ اشکنازیوں کا دائرہ کار ہے ۔ سفاردی یہودی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک تلمود و تورات  کا ہر حرف ایمان کا حصہ ہے جسے آسمانی قدروں کے ساتھ مکمل کرنا ان پر فرض ہے ۔ ان کے مقابلے میں اشکنازی یہودی یورپ کے علم و افکار ، نمود و نمائش اور جدیدیت سے متاثر ہیں ۔ گویا یہ ایک تقسیم کار ہے جس کے تحت اشکنازیوں کو حکومت ، درس گاہوں ، کام کی جگہوں پر کام کرنا تھا اور قابو میں لانا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے عشرت کدوں اور فحاشی و عریانی کا سہارا لیا جبکہ سفاردیوں کو یہواہ کی بادشاہت کے قیام کے لیے دنیا بھر کے غیر یہودیوں پر کام کرکے انہیں قدموں تلے جھکانا تھا ۔

یہودیوں کی کہانی جاری ہے ۔ بقیہ گفتگو  آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

پاکستان سے افغانوں کا انخلا  حصہ چہارم و آخر

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

اب دیکھتے ہیں کہ افغانوں کی پاکستان بدری سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ پاکستان سے افغانوں کا اس وقت انخلا کیا جارہا ہے جس وقت افغانستان میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے ۔ انخلا کیے جانے والے افراد کی اکثریت کے پاس افغانستان  میں کوئی فوری ٹھکانا موجود نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برفباری  اور شدید  ٹھنڈ میں یہ کھلے میدانوں میں خیمہ لگائے بیٹھے ہوں گے  جس سے انسانی المیہ جنم لے گا ۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سارے ہی افغان مہاجرین  جرائم پیشہ نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان بدر کیے جانے والے افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے کہ تمام جرائم پیشہ افراد کو پکڑ پکڑ کر بے دخل کیا جا رہا ہے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ بس جو ہاتھ لگا ، اسے پکڑا دھکڑا ۔ جس نے پیسے دے دیے ، انہیں چھوڑ دیا اور جو اس کی سکت نہیں رکھتا ، اسے بے دخل کرنے کے لیے کیمپوں میں پہنچادیا ۔

میں پہلی قسط میں ہی لکھ چکا ہوں کہ افغانستان کی ساٹھ فیصد سے زاید آبادی وہ ہے جس نے امریکی دور میں یا تو آنکھ کھولی یا ہوش سنبھالا ۔ انہیں بھارت و امریکا نے خوب پاکستان دشمنی کے انجیکشن لگائے ۔ یہ پہلے سے ہی زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہیں ۔ ایسے میں جب پاکستان سے افغان مہاجرین اس طرح افغانستان پہنچیں گے ، وہ زہریلے پروپیگنڈے کا شکار افغان نوجوانوں کے جذبات کو برانگیجتہ کریں گے ۔  اس کی بہترین مثال افغان کرکٹ ٹیم ہے ۔   افغان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی تنخواہوں سمیت سارے ہی اخراجات بھارتی حکومت برداشت کرتی ہے تو افغان کرکٹ ٹیم کے پاکستان مخالف جذبات بھی سب کے سامنے ہیں ۔

اگر افغان مہاجرین کو پاکستان بدر کرنا ہی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ حکمت عملی بنانی چاہیے تھی ۔ آپ کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین جرم میں ملوث ہیں تو پھر سب سے پہلے ان افغانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہیے تھا جو جرائم میں ملوث ہیں ، چاہے ان کے پاس قانونی دستاویزات ہیں یا نہیں ہیں ۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں ان لوگوں کو پورے ملک سے سمیٹ کر سرحدی صوبوں تو لانا چاہیے تھا ۔ یعنی کراچی سے مہم شروع کرتے اور بتدریج ایک ایک علاقہ خالی کرواتے ہوئے انہیں پہلے سرحدی علاقوں تک لاتے ۔ 37 لاکھ افراد کو آپ دو ماہ تو کیا دو سال میں بھی نہیں نکال سکتے ۔ تو بہتر تھا ، اس کے لیے افغان حکومت کی مشاورت سے کوئی پالیسی طے کی جاتی ۔

اس وقت پاکستان ایک عجیب طرح کی صورتحال سے دو چار کردیا گیا ہے ۔ مسلسل کی جانے والی حماقتوں ( جی ہاں جان بوجھ کر کی جانے والی حماقتوں ) کی بناء پر پورے پاکستان میں عجیب طرح کی بےچینی  پھیلی ہوئی ہے ۔ پارا چنار کا علاقہ مسلسل میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔ گوادر والی ساحلی پٹی محافظین کے لیے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ خاص طور سے پنجگور کا علاقہ ۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی حملے جاری ہیں ۔ خیبرپختون خوا میں بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ حال میں ہی میانوالی میں تربیتی ایئر بیس پر حملہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔  اس سے بھی بڑھ کر بجلی کے بلوں کی آڑ میں آزاد کشمیر میں جو کھیل کھیلا گیا ، وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ اس علاقے میں پہلی مرتبہ پاکستان مخالف نعرے لگے ، پاک فوج کے قافلے کو روک لیا گیا ۔

یہ وہی علاقے ہیں جہاں سے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران جب فوجی قافلے گزرتے تھے ، تو دیہاتی ان کے لیے لسی اور شربت لیے کھڑے ہوتے تھے ۔ سپاہی سے ہاتھ ملانے کو بھی اعزاز سمجھا جاتا  تھا  ۔ اب یہ 180 درجے پر یوٹرن کی وجہ  کچھ تو ہے ۔ جس طرح سے مالا کنڈ میں لیویز نے افغان مہاجرین کے خلاف ایکشن لینے سے صاف انکار کردیا ہے ، اس نے سقوط بنگال سے قبل بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی یاد تازہ کردی ہے ۔

ان سب ادھورے اور نیم دلانہ اقدامات کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی اکثریت پاکستان سے نہیں جائے گی  بلکہ وہ یہیں رہے گی  ، جرائم پیشہ افراد بھی پولیس اور دیگر اداروں کی معاونت سے اپنا کام کرتے رہیں گے ، اسمگلنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی بس سرحد پار پاکستان مخالف جذبات مزید بھڑکیں گے ۔ ہماری مشرقی سرحد پر پہلے ہی بھارت دراندازیوں سے باز نہیں آرہا ۔ چند دن قبل ہی سیالکوٹ پر ورکنگ باونڈری پر ہونے والی شدید گولہ باری کی بناء پر وہاں کی آبادی کو راتوں رات محفوظ علاقے میں منتقل کرنا پڑا ۔ ایسی حالت میں مغربی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کے نتیجے میں پاک فوج کی آدھی نفری پاک بھارت سرحد سے ہٹا کر پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر منتقل کرنا پڑے گی ۔ نفری میں کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید بھرتیاں بھی کرنا پڑیں گی جس کا مطلب ہے بجٹ میں بھاری بھرکم اضافہ ۔

اب تک کیے جانے  والے cleaning operations  میں کھربوں روپے لگ چکے ہیں جبکہ نتائج مایوس کن ہیں ۔ ایسے میں  مغربی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کا مطلب یا تو مشرقی سرحد سے نفری ہٹا کر رسک لینا ہے یا پھر مزید فوج بھرتی کی جائے ۔ مزید دفاعی بجٹ بڑھانے کا واحد مطلب ملک پر مزید مالی بوجھ ڈالنا ہے ۔ یہ pull n push  والی پالیسی ہے ۔ یعنی ایک طرف ملک کی معاشی  سرگرمیوں کو کم کیا جائے تو دوسری طرف مالی بوجھ میں اضافہ کیا جائے ۔ ریاضی کی زبان میں اس کے نتائج دگنا مہلک ہوتے ہیں ۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ دو رسیوں پر اگر پانچ پانچ چڑیاں بیٹھی ہوں ۔ ان میں سے ایک چڑیا اڑ کر دوسری رسی پر بیٹھ جائے تو فرق ایک چڑیا کا نہیں ہوگا بلکہ دو چڑیوں کا ہوگا ۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی بہتر حکمت عملی اپنائی جاتی اور اس طرح سے پاکستان کے پڑوسی ممالک میں نفرتوں کو فروغ نہ دیا جاتا ۔ بھارت سے دوستی ناممکن ہے کہ وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی چانکیہ پالیسی پر پہلے دن سے  عمل پیرا ہے تو افغانستان اور ایران کے ساتھ تو یورپی ممالک کی طرز پر پرامن تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔  اس وقت پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جو بے چینی پیدا کردی گئی ہے ، وہ انتہائی تشویش ناک ہے اور اس پر سنجیدہ ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔

 اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

پاکستان سے افغانوں کا انخلا  حصہ سوم

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

اب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں کے اس طرح  اچانک  جبری انخلا سے پاکستان پر کیا معاشی اثرات مرتب ہوں  گے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین  (UNHCR) کے مطابق اس وقت پاکستان میں 37 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں ۔  مزید گفتگو سے قبل ایک غلط فہمی کی وضاحت ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اتنی بھاری تعداد میں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جو اس کی معیشت کے لیے بوجھ ہے ۔ یہ مہاجرین اس وقت تک پاکستان کی معیشت پر بوجھ تھے ، جب تک یہ کیمپوں میں رہ رہے تھے اور ان کے طعام و قیام کے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کررہی تھی ۔ جب سے یہ خود کھا کما رہے ہیں ، یہ حکومت پاکستان پر کس طرح سے بوجھ ہیں ۔ یہ پاکستانی معیشت پر اتنے ہی بوجھ ہوسکتے ہیں جتنا ایک عام پاکستانی ۔ چونکہ حکومت پاکستان نہ تو کسی کو بے روزگاری الاونس دیتی ہے اور نہ ہی کسی غریب کو ٹیکس میں کوئی رعایت ، تو پھر کوئی بھی عام فرد کیسے  معیشت  پر بوجھ ہو سکتا  ہے ۔ یہ عام فرد  غذائی اشیاء  ، ادویہ ، سگریٹ ، فون کال ، مٹی کے تیل سمیت ہر چیز پر تو ٹیکس دیتا ہے ۔ایک عام آدمی اپنی آمدنی کے لحاظ سے جتنا ٹیکس دیتا ہے  ۔ وہ آمدنی کےتناسب سے   خاص مراعات یافتہ طبقے سے کہیں زیادہ ہے ۔  تو معیشت پر بوجھ تو مراعات یافتہ طبقہ ہوا ۔

 کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستانیوں کے حصے کا اناج کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے  مقامیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو جناب یہ خرید کر کھاتے ہیں اور ان غذائی اشیاء و خدمات پر جتنے بھی ٹیکس ہیں ، وہ یہ ادا کرتے ہیں تو پھر کس طرح سے یہ پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کررہے ہیں ۔ اس کے الٹ یہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ افغانی شاید وہ واحد لوگ ہیں جن کے کمسن   بچے بھی کام کرتے ہیں ۔ اس طرح سے تو یہ زیادہ ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ایک عام پاکستانی سے زیادہ ڈال رہے ہیں ۔ ان 37 لاکھ لوگوں کو جیسے ہی آپ ملک سے نکالیں گے ،  نہ صرف ملک کی مجموعی قومی پیداوار کم ہوجائے گی بلکہ اسی لمحے مارکیٹ بھی سکڑ جائے گی ۔ کپڑے ، جوتے ، کھانے غرض ہر ضرورت زندگی کی طلب اتنی  ہی کم ہوجائے گی ۔ کوئی معیشت داں کیسے یہ تصور کرسکتا ہے کہ اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے ہاتھ سے جانے دے ۔  اگر  جنوبی افغانستان آپ پر انحصار کرتا ہے تو اسے عطیہ خداوندی سمجھیں اور اس مارکیٹ میں مزید قدم جمائیں ۔ کوشش کریں کہ اپنی مصنوعات کو پہلے شمالی افغانستا ن اور پھر ملحقہ وسط ایشیا کے ممالک تک پہنچائیں ۔  وہاں پر بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں قائم کریں اور روابط کو تجارت سے آگے بڑھا کر ایک درجے اور اوپر تک لے جائیں ۔

اگر افغانستان سے تجارت باقاعدہ نہیں ہے اور بذریعہ اسمگلنگ ہے تو اس میں قصور کس کا ہے  ؟  یہ کمال ان لوگوں کا ہے جو سرحد پر اسی کام کے لیے بیٹھے ہیں ۔ یہ مت بتائیں کہ اسمگلنگ غیر روایتی راستوں سے ہوتی ہے ۔ جناب یہ ساری اسمگلنگ دن کے اجالے میں ٹرکوں کے قافلے کی صورت میں ہوتی ہے ۔ غیر روایتی راستے پر ٹرک نہیں چل سکتے ۔ تو پھر  پاکستان کی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار کون ہوا  ؟ وہ لوگ جو دن رات سرحد پر بیٹھے پیسے بنا رہے ہیں اور ان کے ذمہ داران جو اپنا حصہ ہنسی خوشی وصول کررہے ہیں ۔

پوری دنیا میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے جو آپ کے ملک میں سرمایہ کاری لے کر آئیں ۔ یورپ ، کینیڈا اور آسٹریلیا و نیوزی لینڈ بھی ایسے لوگوں کو اپنے ملک کی شہریت کی پیشکش کرتے ہیں جو ان  کے ملک میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ اب تو دبئی اور سعودی عرب بھی ایسے لوگوں کو طویل مدتی ویزوں کی پیشکش کرنے لگے ہیں ۔ یہ پاکستان کے بزرجمہر الگ ہی دنیا میں رہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بھی جو آپ کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ، انہیں پکڑ کر کہتے ہیں کہ تشریف لے جائیے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انہیں ان کی اپنی رقم بھی لے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔

کہا یہ گیا کہ ہم سارے افغانوں کو نہیں کہہ رہے کہ وہ پاکستان چھوڑ دیں  بلکہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اس کے لیے کہا جارہا ہے ، مگر عملی طور پر یہ ہورہا ہے کہ جسے چاہا ، اسے پکڑ کر سرحد پر پہنچا دیا ۔ ہماری پولیس اور ایجنسیاں کس رعونت سے پیش آتی ہیں ، اس کا مظاہرہ میں اور طارق ابوالحسن طورخم سے افغانستان جاتے ہوئے بھی اور پاکستان واپسی میں بھی دیکھ چکے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ چمن بارڈر پر بھی دیکھ چکے ہیں ۔ ہم تو پاکستانی تھے ، صحافی تھے اور بااثر تھے ، اس کے باوجود ان کا رویہ ناقابل برداشت تھا ۔ کسی کو دشمن بنانے کے لیے مزید کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہے ، اس کے لیے یہ ایف آئی اے امیگریشن ، اینٹی نارکوٹکس،  کسٹمز ، محکمہ صحت ، پولیس وغیرہ وغیرہ کے اہلکار ہی کافی ہیں ۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ 

  (1)سوات میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کو عمرانی دور حکومت میں نہ صرف واپس آنے کی باقاعدہ اجازت دی گئی بلکہ سہولیات بھی مہیا کی گئیں جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی دوبارہ سے کارروائیاں شروع ہوئیں  اور ان جنگجووں کو دوبارہ سے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ مل گئی ۔ اب پھر سے ان علاقوں میں نو گو ایریا وجود میں آنے شروع ہوگئے ہیں ۔

(2)   ناٹو کے جو بھی کنٹینر غائب ہوئے اور اسلحہ ان دہشت گردوں تک پوری منصوبہ بندی سے پہنچایا گیا ، اس میں پاکستان نے خود سہولت کاری کا  کردار ادا کیا ۔

(3) جو بھی ملک سے اسمگلنگ ہورہی ہے ، اس میں ایک عام آدمی کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ اس میں بڑی مچھلیاں اور پاکستانی سہولت کار برابر کے شریک ہیں ۔

(4 ) ڈالر کی اسمگلنگ افغانستان بھی ہورہی ہوگی مگر اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ۔ منی لانڈرنگ کا پیسہ پاکستانیوں کا ہے جو انہوں نے کرپشن کے ذریعے بنایا ہے اور اسے یورپ ، دبئی وغیرہ بھیجا جاتا ہے ۔ غیر ملکی بینکوں میں سارے ہی پاکستانیوں کے بھاری بینک اکاونٹس اس کا ثبوت ہیں ۔ گاہے بگاہے آنے والے لیکس بھی اس کا بھانڈا پھوڑتے رہتے ہیں ۔ آپ سارے ہی افغانیوں کو ملک بدر کردیں ، یہ اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ اسی طرح جاری و ساری رہے گی کہ اس کے انسداد کے ذمہ دار ہی اس کے  سہولت کار   ہیں ۔

یہ مختصر جائزہ تھا کہ افغانوں کو اس طرح ملک بدر کرنے کے پاکستان پر کیا معاشی اثرات ہوں گے ۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان پر کیا اسٹراٹیجک زد پڑے گی ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے آپ خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

پاکستان سے افغانوں کا انخلا  حصہ دوم

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

کہا گیا کہ جیسے ہی افغانوں پر کریک ڈاون کیا گیا ، پاکستان میں روپے کی قدر مستحکم ہوگئی ۔ اس پر میں پہلے بھی بہت تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ یہ صرف کتابی باتیں ہیں کہ طلب اور رسد کرنسی کی قدر کا تعین کرتی ہیں ۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ مرکزی بینک ہوتا ہے جو اپنے آقاوں کی ہدایت پر کرنسی کی قدر کا تعین کرتا ہے۔ اس پر بھی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے سارے ہی مرکزی بینک جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی شامل ہیں ، سب نجی ہیں اور چند خاندانوں کی ملکیت ہیں ۔ یہ بات بھی ہم گزشتہ  آرٹیکل میں دیکھ چکے ہیں کہ اسمگلنگ کی روک تھام میں سرحدی محافظین ہی واحد کردار ہیں ۔ آج سے دو ماہ قبل بھی یہی سارے لوگ سرحد پر موجود تھے ، تب کیوں اور کیسے اسمگلنگ ہورہی تھی اور اب کیسے رک گئی ہے ۔ یہ سب محض دکھاوا ہے ۔ یہاں تک تو واضح ہے کہ افغانیوں کے پاکستان سے انخلا کے لیے جو کچھ بھی وجوہات بتائی گئی ہیں ، ان میں جان  نہیں ہے ۔ وجوہات کچھ اور ہیں ۔ ان پر گفتگو آخر میں ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں کے اس طرح انخلا کے پاکستان پر کیا نتائج مرتب ہوں گے ۔

افغانستان دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہیں جس کی آبادی میں نوجوانوں کی شرح بلند  ترین ہے ۔ اس کے 24 برس سے کم عمر کی آبادی مجموعی آبادی کے ساٹھ فیصد کے قریب ہے ۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ یعنی افغانستان کے 30 برس یا اس سے کم عمر کے لوگ وہ ہیں جو یا تو   افغانستان پر امریکی  قبضے کے بعد پیدا ہوئے یا انہوں نے ہوش سنبھالا ۔ انہیں وہ تاریخ یاد ہے جو امریکا نے انہیں پڑھائی ۔ افغانستان کے دفاع میں پاکستان کے کردار اور افغانوں کی مہمان نوازی سے یہ یکسر ناواقف ہیں ۔ انہیں تو امریکی اور بھارتی اسباق یاد ہیں جو اس عرصے میں افغا ن میڈیا اور تعلیمی اداروں میں انہیں رٹائے گئے ۔ امریکی قبضے کے بعد سے ہی افغانستان پر بھارتی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے وہاں کا نصاب بھی تبدیل کیا اور اساتذہ پر بھی خاصی محنت کی ۔ انہیں خصوصی طور پر مختلف پروگراموں کے تحت بھارت میں تربیت کے لیے لایا گیا ۔ خود افغانستان کے اندر  بھارت نے بہت محنت کی ۔ بھارت کی ساری محنت ، سارے پروجیکٹ جنوبی افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون بیلٹ میں تھے ۔ اس کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ اسے پاکستان کو دوسری جانب سے گھیرنے کا موقع ملا   اور اسے اپنے ایجنٹ بنانے کا موقع ملا ۔

اس وقت افغانستان میں نئی نسل میں عمومی طورپر پاکستان کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے ۔ طالبان کے دوبارہ  برسراقتدار آتے ہی جب   میں افغانستان رپورٹنگ کے لیے گیا تھا توکابل میں آئے ہوئے مختلف افغان مہاجرین سے بات کرتے وقت ہمیں کئی مرتبہ اپنے آپ کو بھارتی ظاہر کرنا پڑا ، ورنہ وہ بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے تھے ۔ اشرف غنی کے دور حکومت میں تو پاکستانی سفارتخانے کے لوگ کابل کے چند علاقوں تک ہی محدود تھے ۔ ان پر نفرت انگیز حملے ہوتے تھے ۔

دوسری جانب امریکا اور بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے ایجنٹوں کو بھر پور طریقے سے منظم کیا بلکہ انہیں اسلحہ اور بھاری رقوم بھی مہیا کیں ۔ امریکا افغانستان میں داعش کی پھانس گاڑ کر گیا ہے ۔ یہ  پاکستان کی سرحد کے ساتھ پہلے  افغان ضلع ننگر ہار میں جس کا صدر مقام جلال آباد ہے ، میں ہی سب سے زیادہ  منظم ہیں ۔ بھارت آج بھی افغان کرکٹ ٹیم کا مالی بوجھ اٹھاتا ہے ۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کی توجہ اس کی مشرقی سرحدوں پر ہی مرکوز نہ رہے بلکہ اسے مغربی سرحدوں پر بھی الجھا کر رکھا جائے ۔ نہ صرف سرحدوں کے اندر الجھا کر رکھا جائے بلکہ اسے اندرونی محاذوں پر بھی  مصروف رکھا جائے ۔

نیٹو کے جو  آٹھ ہزار کنٹینر افغانستان جاتے ہوئے پاکستان میں  مشکوک طریقے سے غائب ہوئے تھے ، اب وہ بال و پر لانے لگے ہیں ۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملے میں یہی جدید امریکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے ۔ اس وقت جب یہ کنٹینر مسلسل غائب ہورہے تھے ، تو بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس پر ذمہ داروں نے آنکھ ، ناک ، کان سب بوجوہ بند کیے ہوئے تھے اور انہوں نے عملی طور پر سہولت کاروں کا کردار ادا کیا ۔

آپ کسی سے سوال کریں کہ اب ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے ۔ وہ یہی کہے گا کہ پاکستان دوست افغانوں کو سامنے لایا جائے تاکہ وہ پاکستان دشمن افغانوں  کے اثر کو ذائل کرسکیں۔

مگر ہم کیا کررہے ہیں  ؟ گزشتہ  کئی برسوں سے ہم نے اپنے دشمنوں کی فہرست تبدیل کردی ہے ۔ 1947 سے لے کر کئی برس پہلے تک پاکستان کا دشمن بھارت تھا ۔ چند برسوں سے سرکاری بیانات میں  پاکستان کے دشمن افغانستان اور ایران ہیں ۔  بلوچستان حکومت کا کل  کا ہی بیان دیکھ لیں ۔ پاکستان کے یہی دو دشمن ہیں سرکار کی نظر میں ۔ اب تک ہمیں صرف اور صرف بھارت کے ساتھ ملی ہوئی سرحد کی فکر تھی ۔افغانستان سے ہونے والی کسی بھی در اندازی سے  یہیں کے قبائلی  نمٹ لیا کرتے تھے ۔  پھر ہم نے کیا کیا ۔ پہلے ہم نے ان علاقوں میں کرائے کے جنگجووں کی نرسری قائم کی ۔ جب وہ بے قابو ہونے لگے تو ان کی سرکوبی کے لیے ریگولر آرمی کو تعینات کیا ۔ جب اس ریگولر آرمی پر حملے ہونےلگے تو ہم نے صفائی کے نام پر کئی آپریشن کر ڈالے اور جو عمائدین پاکستان کے حامی تھے ، ان کے ساتھ بھی وہ سلوک کیا کہ ان کے دل بھی کھٹے ہوگئے ۔

اب عملی صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا ہماری اپنی کوششوں کی وجہ سے ہمارے اپنے لیے نو گو ایریا بنتے جارہے ہیں ۔ یہ صورتحال  توہے امن و امان کی ۔ اس کے معاشی پہلو پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

پاکستان سے افغانیوں کا انخلا  حصہ اول

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

گو کہ حکومت پاکستان نے 31 اکتوبر پاکستان سے ان افغانیوں کے ملک سے رضاکارانہ طور پر جانے کے لیے آخری تاریخ رکھی تھی ، جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں  تاہم اکتوبر کے مہینوں میں ہی پولیس نے شکار شروع کردیا تھا اور بلا تخصیص قانونی و غیرقانونی ، افغانیوں کو پکڑ کر ان سے بھاری رشوت کی وصولی کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ نومبر شروع ہوتے ہی اب اس سلسلے میں تیزی آگئی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زاید افغانی واپس اپنے ملک میں جاچکے ہیں ۔ اچانک افغانیوں کے انخلا کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی  کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ افغانی ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ افغانی پاکستان سے بھاری تعداد میں ڈالر خرید کر افغانستان اسمگلنگ کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر و روپے کی شرح تبادلہ  بھی بے قابو ہو گئی تھی ۔ جب سے افغانیوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا گیا ہے ،  امریکی ڈالر کے مقابلے میں  پاکستانی کرنسی مضبوط ہوئی ہے ۔ یہ سب کچھ سرکار اور مین اسٹریم میڈیا کا  بیانیہ ہے جو میں نے عرض کیا ہے ۔ پہلا منطقی سوال تو یہی ہے کہ کیا سب کچھ ایسا ہی ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔

سب سے پہلے تو  یہ بات سمجھنے کی ہے کہ افغانیوں کے انخلا کی پالیسی اچانک نہیں بنا لی گئی بلکہ اس کے لیے مہینوں پہلے گراونڈ تیا  ر کرنا شروع کردیا گیا تھا ۔ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز اور پوسٹیں اپ لوڈ کرنی شروع کردی گئی تھیں جس میں بتایا جاتا تھا کہ غیر مقامی افراد چوریاں کررہے ہیں ، ڈکیتی کررہے ہیں ۔ سرکار کی طرف سے روز بیان آتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد افغانستان سے کارروائیاں کررہے ہیں ۔ اس کے بعد اچانک نگراں حکومت نے  31 اکتوبر تک افغانیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔  نگراں حکومت کو صرف اور صرف روز مرہ کے کاموں کو چلانے کااختیار حاصل ہے ۔ اس طرح کے اقدامات جس سے ملک پر دور رس اثرات مرتب ہوں ۔ وہ نگراں حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ اس کی پیش بندی پہلے سے کی جارہی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ ماحول سازی کی گئی ۔ جس کے بعد نگراں حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے یہ کام شروع کیا ۔

سب سے پہلے تو اس الزام کو دیکھتے ہیں کہ افغانی اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانی  جرائم کررہے تھے ، یہ organized crime  اور non organized crime   دونوں میں ہی ملوث ہیں ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف افغانی ہی ان جرائم میں ملوث ہیں یا جتنے بھی افغانی ہیں ، وہ سب کے سب ہی جرائم پیشہ ہیں ۔ اس میں ہر رنگ و نسل اور ہر علاقے کے لوگ شامل ہیں ۔ ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جرم جو بھی کررہا ہو ، وہ اس وقت تک survive نہیں کرسکتا جب تک ملک کی کوئی ایجنسی یا پولیس اس  کی مددگار و پشتیبان نہ ہو ۔

علاقہ پولیس کو سب علم ہوتا ہے کہ کس گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے، وہ کس قماش کے لوگ ہیں ۔ جب پولیس جرم کے قلع قمع کرنے پر اتر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت ان مجرموں کو نہیں بچا سکتی ۔ اس کی مثال اس سے لیں کہ جب شہر کی پولیس کو کسی کو ڈھونڈنا ہوتا ہے تو اسے علاقہ غیر سے بھی ڈھونڈ نکالتی ہے ۔ نادرا کے ریکارڈ سے اس کا اگلا پچھلا سب سامنے آجاتا ہے ۔ لیکن جب نہ پکڑنا ہو تو کسی بھی وڈیو میں چہرہ  چاہے جتنا بھی  واضح ہو ، مجرم مزے سے گھومتا رہتا ہے ۔  کچھ یہی حال دہشت گردی میں ملوث افراد کا ہے ۔ ان کی تنظیموں کو کئی کئی ایجنسیوں کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے ۔

تو اس کا مطلب آسان ترین ہے اور ہر شخص اس سے بخوبی واقف ہے کہ مجرموں کی  نرسری تھانے میں موجود ہے ۔ تو سب سے پہلے یہاں کی صفائی کیجیے ۔ یہ بات کراچی میں افغان قونصل جنرل بھی کہہ چکے ہیں کہ مجرموں کے لیے ہمارے پاس بھی معافی نہیں ہے  تو ہم آپ سے ان کی سفارش کیوں کریں گے ۔ جو بھی مجرم ہیں انہیں بلاتخصیص مثالی سزائیں دیں ۔ اگر آپ سزا نہیں دے سکتے تو انہیں ہمارے حوالے کیجیے ، ہم انہیں وہی سزائیں دیں گے جو افغانستان میں دیتے ہیں ۔ مگر یوں گھوڑے گدھے کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیے ۔

دوسرا الزام یہ لگایا گیا  کہ افغانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت عدم استحکام کا شکار ہے ۔ پاک افغان اسمگلنگ دو طرح کی ہے  ، پہلی طرح کی اسمگلنگ غذائی اشیاء کی ہے ۔ دوسری طرح کی اسمگلنگ افغانستان سے پاکستان میں منشیات کی ہے اور پاکستان سے چوری شدہ اور چھینی ہوئی گاڑیوں اور موبائل فون وغیرہ کی افغانستان کو ہے ۔ اسمگلنگ کا ایک اور طریقہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے ۔  پہلے ان تینوں کو دیکھتے ہیں ۔ جنوبی افغانستان اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار کرتا ہے ۔ جبکہ شمالی افغانستان اس کے لیے ایران ، ازبکستان اور تاجکستان پر انحصار کرتا ہے ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان کو کتنی کس چیز کی ضرورت کے تو بہتر ہے کہ انہیں اس کے لیے باقاعدہ برآمدات کی اجازت دی جائے اور ان سے یہ رقم ڈالروں میں وصول کی جائے ۔ یہ عین پاکستان کے مفاد میں ۔ اب تو وڈیوز موجود ہیں کہ غذائی اشیاء کی اسمگلنگ میں این ایل سی جیسا ادارہ بھی شامل ہے ۔ اب دوسری طرح کی اسمگلنگ کو دیکھتے ہیں ۔ افغانستان میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہے مگر پورے افغانستان میں آپ کو 660 سی سی رائٹ ہینڈ جاپانی گاڑی دوڑتی نظر آئے گی ۔ یہ وہاں پر پاکستانی دو سے تین لاکھ روپے میں مل جاتی ہے ۔ جو گاڑی بغیر کسٹم ڈیوٹی کے پاکستان میں تیس پینتیس   لاکھ روپے سے اوپر پڑتی ہے وہ افغانستان میں دو تین لاکھ میں کیسے مل سکتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ آپ کو سوزوکی کی لوڈنگ گاڑی اور شہزور منی ٹرک بھی وہاں نظر آئیں گے ۔ کچھ یہی حال موبائل فون کا ہے ۔ اس کی accessories  تو پاکستان سے بھی زیادہ مہنگی ہیں مگر موبائل فون سستا ہے ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ سب پاکستان سے چوری کرکے وہاں پہنچائی جاتی ہیں ۔ یہ گاڑیاں اور موبائل خود یہ افغانی چھین کر افغانستان نہیں لے جاتے بلکہ اس میں ہر قوم اور نسل کا مجرم شامل ہے ۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ  یہ گاڑیاں کوئی جیب میں رکھ کر نہیں لے جاتا بلکہ یہ باقاعدہ ٹرکوں پر لوڈ ہو کر یا پھر چلا کر لے جائی جاتی ہیں ۔ یہ سوال مت کیجیے گا کہ سرحدی محافظ کیا کررہے ہوتے ہیں ۔ اگر آپ سرحدوں پر تعینات ہر محافظ کا معیار زندگی اور جائیدادیں دیکھیں تو خود پتا چل جائے گا کہ وہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا تو حال اور زبردست ہے ۔ یہ مال پاکستان میں  کسی بھی ڈرائی پورٹ سے کلیئر ہوتا  ہے اور گودام کی زینت بن جاتا ہے ۔ کاغذات سرحد پر جاتے ہیں اور ان پر بارڈر کراسنگ کی مہر لگتی ہے اور یوں کاغذات میں یہ مال افغانستان پہنچ جاتا ہے جبکہ بغیر ڈیوٹی دیے یہی مال پاکستان کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے ۔

تو جناب اب بتائیے کہ مجرم کون ہیں ، ان کی سرپرستی کرنے والے یا کوئی اور ۔ جس روز جرم کی سرپرستی ختم کردیجیے ، چاہے یہ اسٹریٹ کرمنل ہوں ، لینڈ گریبر ہوں یا اسمگلر ، مجرم بھی ختم ہوجائیں گے ۔

اب ایک آخری الزام بچتا ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ سے ملک کی معیشت ڈانواڈول ہوئی ۔ اس پر اور دوسرے سوال پر کہ افغانیوں کے اس طرح انخلا کرنے سے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے ، گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

 اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 31, 2023

Pearl Harbor پرل ہاربر

پرل ہاربر

مسعود انور

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com

دیکھنے میں یہ ایک بہترین فوجی کارروائی  تھی ۔ محض سوا   گھنٹے کی کارروائی میں دشمن کے 20 بحری جہاز اور 188 سو لڑاکا طیارے تباہ کردیے گئے ۔   صرف یہی نہیں ، دشمن کے 2403  فوجی بھی مارے گئے اور تقریبا 12  سو فوجی زخمی بھی ہوئے ۔ جواب میں حملہ آور فوج کے محض  129 فوجیوں کا جانی نقصان ہوا ۔ یہ کوئی اچانک حملہ نہیں تھا ، اس کے لیے مہینوں منصوبہ بندی کے ساتھ مشق بھی کی گئی تھی ۔ یہ بھرپور مشق اور حملہ آور فوجیوں کی بے جگری تھی کہ انہوں نے اتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا ۔  اتنی کہانی آپ کسی کو بھی سنائیں ، واہ واہ کر اٹھے گا ۔ یہ پرل ہاربر کی کہانی ہے ۔ 7 دسمبر 1941 اتوار کا دن تھا اور دوسری عالمی جنگ عظیم پر تھی ۔ 177 جہازوں پر سوار جاپانی جانبازوں نے ہوائی کے جزیرے اوآہو (Oahu)   پر مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجکر 55 منٹ پر حملہ کردیا ۔ 163 جہازوں پر سوار حملہ آوروں کی دوسری لہر 8 بجکر 50 منٹ پر پہنچی اور نو بجے جاپانی امریکی فوج کو تباہ کرکے واپس بھی ہوچکے تھے ۔

مگر کہانی یہیں تک محدود نہیں رہی ۔ امریکا اس وقت تک عالمی جنگ میں  کم از کم نام کی حد تک غیر جانبدار تھا اور اس کی فوجیں جنگ میں براہ راست شریک نہیں تھیں ۔ اس حملے کے بعد امریکا نے دوسرے دن ہی جنگ میں باضابطہ شامل ہونے کا اعلان کردیا اور پھر بعد میں جاپان کو محض اسی لیے شکست تسلیم کرنا پڑی کہ امریکا نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم برسا دیے تھے ۔

جتنی بار میں غزہ میں اسرائیلی مظالم  دیکھتا  ہوں ، اتنی بار ہی میرے ذہن میں پرل ہاربر کا واقعہ گھوم جاتا ہے ۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ کے تحت اسرائیل پر حملہ کردیا ، وہ کامیاب بھی رہے ۔ پھر ؟   اسرائیل ننھے سے غزہ میں اب تک دو لاکھ سے زیادہ مکانات کو زمیں بوس کرچکا ہے ، اسپتال  بھی محفوظ نہیں ہیں اور ان پر بھی مسلسل فضائی حملے جاری ہیں ۔ نہ دوائیں ہیں اور نہ ہی ایندھن کہ ٹوٹے پھوٹے اسپتال میں علاج ہوسکے ۔ روزانہ دو سو کے اوسط سے تو صرف بچے جام شہادت نوش کررہے ہیں ۔ اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ عملی طور پر غزہ ایک ایسے خونی تھیٹر میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں پر آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور پوری دنیا انہماک سے اس کھیل کو دیکھ رہی ہے ۔ اسرائیل کے دوست اور سرپرست کھلے عام نہ صرف اس کی  اخلاقی اور زبانی مدد کررہے ہیں اور بلکہ برملا اسلحہ ، جہاز و دیگر ساز و سامان بھیج کر اس کی عملی مدد کے لیے بھی میدان میں موجود ہیں ۔ اسرائیل کے سنگی ساتھیوں نے تو انٹرنیٹ اور گوگل میپ پر لائیو ٹریفک تک بند کردیا ہے ۔ انسٹا گرام اور فیس بک فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم اور ان پر احتجاج کے حوالے سے فوری طور پر نہ صرف پوسٹ ہٹا دیتے ہیں بلکہ تنبیہ بھی جاری کرتے ہیں اور مستقل طور پر اکاونٹ بھی بند کردیتے ہیں ۔ برطانیہ ، فرانس سمیت دیگر ممالک نے فلسطین کے حق میں نکلنے والی ریلیوں تک پر پابندی عاید کی ہوئی ہے ۔

دوسری جانب فلسطینی اپنوں ہی کی چیرہ دستی کا شکار ہیں ۔ مصر نے رفح کی سرحد مسلسل بند کی ہوئی ہے  کہ غزہ کو امدادی سامان کی فراہمی کا واحد راستہ ہے تو دوسری جانب اردن نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے لیے اپنی زمین کے استعمال کی اجازت دی ہوئی ہے ۔ ہم اس کی بات نہیں کرتے کہ سعودی عرب ، ترکی ، ملائیشیا، پاکستان وغیرہ کیا کررہے ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ اب تک کی زمینی صورتحال یہ ہے کہ ایران نے حماس کی حمایت کا بار بار اظہار کیا ہے مگر یہ ساری صورتحال زبانی ہی ہے ۔ حماس کے پاس نہ تو وہ اسلحہ ہے جو حوثیوں کو فراہم کیا گیا تھا اور نہ ہی کہیں سے امداد کی کوئی  اور صورت ہے ۔ حماس کو حزب اللہ سے بڑی امیدیں تھیں مگر اب اس بارے میں بھی حماس مایوسی کا شکار ہے کہ اس کے پاس نسبتا جدید ہتھیار موجود ہیں مگر علامتی طور پر اسرائیل پر ایک پٹاخہ پھینک دیا جاتا ہے اور بس ۔ ایران  کی زبانی بڑھکیں اور اسے   اچانک  متواتر ملنے والی  عالمی رعایتیں بھی مشتبہ ہیں جس پر سوشل میڈیا پر بہت کچھ آرہا ہے ۔

فلسطین صرف اسرائیل کی جانب سے ہی حملے کی زد میں نہیں ہے ۔ لبنان کی سرحد پر برطانوی فوج اپنے واچ ٹاورز میں موجود ہے۔ یہ واچ ٹاورز برطانوی فوج نے داعش کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے نام پر تعمیر کیے تھے ۔ داعش تو موجود نہیں مگر یہ برطانوی فوجی ابھی بھی یہاں پر تعینات ہیں ۔ لبنانی فوج کو تربیت دینے کے بہانے بھی برطانوی  ہینڈلر براہ راست لبنانی فوج کے اندر  موجود ہیں ۔ اردن میں بھی فوجی تربیت اور معاونت کے   کئی معاہدے موجود ہیں جس کے تحت برطانوی فوجی مجسم موجود ہیں ۔ مصر تو ہے ہی ان کی کالونی ۔ ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ فوجی اقوام متحدہ کے نام نہاد فوجی نہیں ہیں کہ سربرنیکا میں موجود تھے اور وہاں پر ان کے آنکھوں کے سامنے مردوں اور لڑکوں کو ایک گراونڈ میں جمع کرکے جان سے مار دیا گیا ۔ کمسن لڑکیوں اور عورتوں کی منظم آبرو ریزی کی گئی اور انہیں قحبہ گھروں کو فروخت کردیا گیا ۔ یہ برطانوی فوج ہے جو یہودیوں سے زیادہ اسرائیل کی وفادار ہے ۔

اب تک بہت کچھ واضح ہوچکا ہے کہ غزہ میں طوفان الاقصیٰ کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا گیا ۔  آئندہ چند ہفتوں میں مزید واضح ہوجائے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوچا جائے کہ ہم ٹسوے بہانے کے علاوہ کیا کرسکتےہیں ۔ آہ و بکا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہر سطح پر سوچا جائے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور پھر جو کچھ ممکن ہے وہ کر گزرا جائے ۔ میں امدادی سامان بھیجنے کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ عملی اقدامات کی بات کررہا ہوں ۔ سوچ ڈالیے اور کوئی لائحہ عمل طے کیجیے ۔ معاملہ صرف الاقصیٰ یا حماس کا نہیں ہے ، امت مسلمہ کا ہے ۔ اگر اب بھی اس بارے میں کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا تو پھر سقوط اسپین کی تاریخ دہرانے کے لیے تیار رہیے کہ ایک ایک کرکے سب کی اسی طرح باری آنی ہے ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

فلسطین – ہم کیا کررہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے  حصہ دوئم و آخر

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے اور اس میں پاکستانی قوم کو یدطولیٰ حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور خوبی جو ہمیں حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سارے کام کوئی دوسرا کرے اور ہم مزے کریں  ۔  ہم تو اتنے آرام طلب ہیں کہ دبلا ہونے کے لیے بھی ورزش کے بجائے کچھ کھانا پینا  چاہتے ہیں ۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ دبلا ہونے کے لیے کوئی دوا بتائیں ۔ کوئی سبز چائے میں لیموں کا ٹوٹکا استعمال کررہا ہوگا تو کوئی کچھ اور ۔ آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں ، مہنگائی پر بات ہو رہی ہو تو سب ایک ہی بات کہہ رہے ہوں گے کہ عوام میں دم خم نہیں ہے ورنہ ایسا نہیں ہوتا ۔ میرے بھائی عوام کوئی الگ مخلوق تو ہے نہیں ۔ یہ ہم سب سے مل کر ہی وجود میں آئی  ہے ۔ ہر شخص بجلی کے بلوں سے تنگ ہے مگر جب احتجاج کی باری آئے تو ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ احتجاج کوئی اور کرلے ۔ فلسطین کے معاملے پر ہی دیکھ لیں ۔ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے مظالم پر کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زاید ہے مگر احتجاج میں لاکھ آدمی بھی شریک نہیں ہوا ۔ اگر کراچی کی ایک تہائی  آبادی بھی اپنے گھر کے قریب کی مین روڈ پر  صرف آدھے گھنٹے کو آجاتی تو پورے کراچی میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی اور پوری دنیا کو میسیج الگ جاتا ۔ یہ الگ بات کہ احتجاج سے اگر کچھ ہو رہا ہوتا تو عراق پر امریکی حملہ نہ ہوتا ۔ عراق پر حملے سے قبل یورپ میں واقعتا ملین مارچ ہوئے تھے مگر اس کے نتائج کم از کم وہ تو نہیں نکلے جو مطلوب تھے اور امریکا و برطانیہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔علامہ اقبال نے درست ہی کہا تھا کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔ ہرن کے احتجاج پر شیر اس کا شکار نہیں چھوڑتا مگر جب بھینسے موجود ہوں تو شیر کی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی بھینس یا اس کے بچے کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی دیکھ لے ۔

تو پھر کیا کرنا چاہیے ۔ یہی اہم ترین سوال ہے ۔ ہر شخص یا قوم اپنے وسائل اور استطاعت کے مطابق ہی معاملات کرتی ہے ۔ اگر کسی فوج میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ دو بدو دشمن کا مقابلہ کرسکے تو وہ شکست نہیں تسلیم کرلیتی بلکہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی ہے اور گوریلا جنگ میں چلی جاتی ہے تاکہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اپنا ہدف حاصل کرسکے ۔ دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے کمزور اہداف تلاش کیے جاتے ہیں تاکہ اسے زیادہ زیادہ سے زک پہنچائی جاسکے ۔ 

سب سے پہلے تو دشمن کو پہچانیں ۔  کیا آپ کا دشمن اسرائیل ہے ، بھارت ہے ، یورپ ہے ۔ اصل دشمن ہے کون ۔ نہیں جناب اس میں سے کوئی بھی ہمارا اصل دشمن نہیں ہے ۔ یہ تو گدھ ہیں جو مردار کھا رہے ہیں ۔ اپنے دشمن تو ہم خود ہیں جس نے اپنے آپ کو کمزوررکھا ہوا ہے ۔ کوئی فرد ہو یا  قوم ، اسے غلام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے قرض تلے دبا دیا جائے ۔ آپ اسرائیل کو ہی دیکھ لیں کہ چند لوگوں نے پانی کی کمی کے شکار اسرائیل میں community base کاشتکاری شروع کی ۔ بی بی سی کی آج کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ اسرائیل کی آبادی کا محض سو ا دو فیصد ہیں مگر اسرائیل کی زراعت میں ان کا حصہ 33 فیصد ہے ۔ انہوں نے اسرائیل کو اس کے پاوں پر کھڑا کردیا ہے ۔ یہی حال ان کے انجینئروں ، ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ور افراد کا ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں آج اسرائیل کا ہمسر کوئی نہیں ہے ۔

اگر القدس کو آزاد کرانا ہے تو جناب آج سے انتھک کام شروع کردیں ۔ ایک اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہم اپنے پیشے میں کام کرنے کے بجائے باقی  ہر جگہ ٹانگ اڑانے کو تیار رہتے ہیں ۔ عام طور پر یہ بات بطور پھبتی کہی جاتی ہے کہ فوجی افسر پاکستان میں ہر کام کرسکتا ہے۔ حالانکہ فوج میں بھرتی محض انٹرمیڈیٹ  کی بنیاد پر ہوتی ہے اور فوج میں کوئی ڈگری کورس نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سرٹیفکٹ کورسز ہوتے ہیں مگر وہ ڈاکٹر بھی ہے ، پائلٹ بھی ، انجینئر بھی ، غرض سب کچھ ہے ۔یہ سوچ صرف فوج تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی سوچ ہے ۔ آپ ایک ڈاکٹر کو اپنے پیشے میں کام  کرتا دیکھنے کے بجائے میڈیا میں دیکھیں گے ۔ ایک انجینئر اپنے شعبے کے بجائے عمامہ باندھے فتویٰ دیتا نظر آئے گا  وغیرہ وغیرہ ۔ اگر پولیس ملزمان کا  قلع قمع کرنے کے بجائے اس کی مذمت کررہی ہو تو آپ کو کیسا لگے گا ۔ مجھے کچھ ایسا ہی فلسطین  کے معاملے پر صحافیوں کے احتجاج کے دوران لگا ۔

کرنے کا کام یہ ہے اہداف چنیں ۔ انجینئر اپنا ، ڈاکٹر اپنا ، صحافی اپنا  اور کسان اپنا  وغیرہ وغیرہ ۔ ہمارا ہدف اسرائیل نہیں ہے بلکہ وہ قوتیں  ہیں جو اسرائیل ، میانمار اور بھارت جیسے  ممالک کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ یہ صحافیوں کا کام ہے کہ وہ ان قوتوں کی نشاندہی کریں ، ان کے کمزور اہداف سامنے لائیں اور اس پر ضرب لگانے کے طریقے بھی بتائیں تاکہ ان پر کاری ضرب لگائی جاسکے ۔ یہ انجینئروں کا کام ہے کہ ملک میں سستی اور متبادل توانائی کے منصوبے عوام کے سامنے لائیں تاکہ  ملک ترقی کی راہ پر چل سکے  اور ان قوتوں کی غلامی سے نجات مل سکے ۔ یہ صنعتکاروں کا  کام ہے  کہ ملک کو اسمبلنگ پلانٹ بنانے کے بجائے صنعت سازی پر کام ہو ۔ یہ ڈاکٹروں اور ادویہ سازوں  کا کام ہے کہ ملک بین الاقوامی فارما کمپنیوں کی مافیا کے چنگل سے نکل سکے ۔

یہ ہمارے دانشوروں کا کام ہے کہ مختلف پریشر گروپ  غیر محسوس طریقے سے پاکستان میں بھی بنائیں اور ان ممالک میں بھی ، جہاں پر ان کی افادیت ہے ۔ اور پھر ان پریشر گروپوں کا استعمال بھی بروقت کریں ۔

اس طرح کے بہت سارے کام احتجاج کے لیے کیے جاسکتے ہیں ۔ اگر ہم میں سے چند فیصد چنیدہ لوگ ہی سوچ لیں کہ بطور احتجاج دو گھنٹے اپنے ہدف کے لیے کام کرنا ہے تو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کرنے کے قابل بننے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے ۔  بات کام کرنے کی ہے ۔ سمجھ لیں کہ احتجاج سے آج تک نہ کوئی ظلم رکا ہے اور نہ رکے گا۔  اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

فلسطین – ہم کیا کررہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے  حصہ اول

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

لکھنا تو مجھے اسرائیل کے فوجی اخراجات پر تھا ۔ مگر اس سے پہلے ایک اور اہم موضوع موجودہ صورتحال  پر گزارشات  ۔   فلسطین کی تازہ صورتحال پر اس وقت پورا عالم اسلام   ایک عالم گریہ میں ہے ۔ اسرائیل انسانیت سوز کارروائی میں روز ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے کہ چنگیز خان کی روح بھی شرما جائے۔ اس پر اسرائیل سے زیادہ اس کے سرپرستوں کی ڈھٹائی نے دنیا کو حیران کردیا ہے ۔

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ماتم کا سماں ہے ۔ ایسے میں  سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ چنگیز خان ، قرامطہ وغیرہ کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ماضی بعید کی باتیں ہیں ۔ ماضی قریب  میں ہی اسرائیل نے صابرہ و شتیلہ میں جو کچھ کیا تھا ، وہ بھی کچھ کم نہیں تھا ۔ روز اسرائیل فلسطینی نوجوانوں ، بچوں اور خواتین کے ساتھ انسانیت سوز تشدد کرکے انہیں مستقل طور پر اپاہج کردیتا ہے ،  غیر معینہ مدت تک پابند سلاسل رکھتا ہے  اور اکثر شہید بھی کردیتا ہے ۔ وہ بھی کسی طرح کم نہیں ہے  اور پھر سب سے بڑھ کر القدس پر قبضہ  ، جس پر سب سے زیادہ ماتم کرنا بنتا ہے ۔

اسرائیل کے علاوہ بوسنیا میں مسلمانوں کی پورے یورپ کی منشاء و رضامندی سے نسل کشی ، سربرانیکا جہاں پر سارے مسلمان نوجوانوں اور مردوں کو قتل کردیا گیا ، جہاں پر دس سے لے کر ساٹھ سال کی کوئی خاتون ایسی نہیں بچی تھیں جس کی آبرو ریزی نہ کی گئی ہو ۔ میانمار کے اراکانی مسلمان جن پر پڑوسی ملک بنگلا دیش نے بھی زمین تنگ کی ہوئی ہے ۔ جب یہ اراکانی مسلمان تحفظ کے لیے گھریلو ساختہ کشتیوں میں اراکان سے  فرار ہورہے تھے تو تھائی نیوی نے ان کا باقاعدہ شکار کیا ۔ مردوں کو سمندر میں پھینک کر قتل کردیا گیا اور خواتین و بچوں کو بردہ فروشوں کے ہاتھ فروخت کردیا گیا ۔ جو لوگ بنگلا دیش پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، وہاں پر بھی بردہ فروش پہنچ گئے اور خواتین و بچے روز اغوا ہونے لگے ۔ بنگلا دیشی حکومت نے انہیں ایک ایسے جزیرے پر بھیج دیا جہاں پر رہنے کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا اور یوں یہ مسلسل بارشوں کا سامنا کرتے ہوئے بیماریوں کا شکار ہونے لگے ۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمان  روز ہی بھارتی فوج کی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہیں جس میں خواتین کی آبرو ریزی اور نوجوانوں کا قتل بھی شامل ہے ۔ سنکیانگ میں تقریبا سارے  ہی مرد و خواتین کو دوا کے ذریعے بانجھ بنا دیا گیا ہے ۔ وہاں کے مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں شراب پینے ،  سور کھانےاور حیا سوز حرکات  پر مجبور کیا جاتا ہے ۔

میں ان علاقوں کا تذکرہ نہیں کر رہا جہاں پر مغربی قوتوں کےایجنٹ مسلط ہیں ۔ جیسا کہ افغانستان میں امریکا کے آتے ہی جو قتل عام ہوا  اور طالبان کو صحرا میں لے جا کر بھوک پیاس سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ، عراق اور لیبیا میں جو کچھ ہوا ،  شام میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یمن میں یزدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ۔ یہ سب بھی  فلسطین میں ہونے والے مظالم سے کچھ کم نہیں ہے ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں فلسطین کے سانحے پر آواز بلند نہیں کرنی چاہیے ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ تو یہ پہلا سانحہ ہے اور اگر ہم اسی طرح سوئے رہے تو یہ آخری سانحہ بھی  نہیں ہے۔ بلکہ اب تو ان کی فریکوئنسی میں روز اضافہ ہی ہوگا ۔ کبھی فرانس میں حجاب اور پھر عبایا پہننے پر پابندی کی صورت میں  تو کبھی بھارتی کرناٹکا میں مسلم بچیوں کو اسلامی تشخص ختم کرنے کا حکم دینے کی صورت میں ۔ بھارت میں ہی گائے کے تقدس کے نام پر کس طرح  آئے دن مسلمانوں کو شدید تشدد کرکے شہید کردیا جاتا ہے ۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے بعد اب بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا ۔  

سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ جو ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم احتجاج کرتے ہیں ۔ زوردار نعرے لگاتے ہیں ، اسرائیلی و امریکی پرچم جلاتے ہیں ۔ زیادہ جذباتی ہوں تو اپنے ہی بھائیوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور گھر پہنچ کر سکون کی نیند سوجاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ۔ جو لوگ عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ انفاق کے لیے کھلے دل  کا مظاہرہ کرتے ہیں اور  بعض اوقات استطاعت سے بھی بڑھ کر کسی ایسی تنظیم کو مالی مدد مہیا کرتے ہیں ، جس کے بارے میں انہیں  یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پریشان بھائیوں کو کھانے پینے کے اسباب مہیا کرے گی اور بیماروں کے علاج کے لیے عارضی اسپتال  کی سہولت مہیا کرے گی ۔ ایسی صورت میں زیادہ طمانیت محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی ۔

پھر کچھ دن کے بعد کوئی ایک اور سانحہ ہوتا ہے اور ہم دوبارہ سے یہی کچھ کرتے ہیں ۔ سوال کیا جائے کہ بھائی اس سے کیا ہوگا تو اس کے جواب میں سوال ہی آتا ہے کہ ہم اور کیا کریں ۔ ہم حکومت تو نہیں ہیں کہ اس سے بڑھ کر کریں ۔ پھر الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ یہ ساری حکومتیں غلام ہیں ، ایجنٹ ہیں ۔ اگر فلاں شخص حکمراں ہوتا تو آج یہ کچھ نہیں ہوتا ۔ سارے مسلم ممالک کے حکمراں یہودیوں کے ایجنٹ ہیں ۔ ہماری فوج بھی کسی کام کی نہیں ۔ ایٹم بم کا کیا کرنا ہے ، اسے کباڑ میں بیچ دو ۔ یہ سب کہہ کر ہم مزید مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے جابر حکمراں کے سامنے  کلمہ  حق بلند کرنے کا فریضہ بھی ادا  کردیا ۔

یہ اہم ترین سوال ہے کہ ہمیں اپنی سطح پر کیا کرنا چاہیے کہ ہم دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روک سکیں اور ان کے لیے تحفظ کی باڑھ ثابت ہوں ۔ اس اہم ترین سوال پر گفتگو کرتے ہیں آئندہ آرٹیکل میں  ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے معاشی مفادات

مسعود انور

www.masoodanwar.wordpress.com

hellomasood@gmail.com

اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہے ۔ قیام سے لے کر اب تک اسرائیل ملحقہ علاقوں پر مسلسل  قبضے کررہا ہے ۔ کیا بات محض اتنی ہی ہے کہ اسرائیل کو اپنی حدود میں اضافہ کرنا ہے ، چاہے اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑے ۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس  پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہو ۔

اس سوال کا جواب بوجھنے سے پہلے اسرائیل کے زیر قبضہ   عرب علاقوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ اسرائیل کے زیر قبضہ عرب  علاقے وہ ہیں جو اس نے 1967 کی محض چھ روزہ جنگ کے بعد شام ، مصر ، لبنان اور اردن سے چھین لیے تھے ۔  شام سے جولان کی پہاڑیاں اسرائیل نے قبضے میں لی تھیں ۔ یہ تقریبا 1800 مربع کلومیٹر کا پلیٹو ہے ۔ بائبل میں اسے جبل باشان کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ یہاں کا قدیم ترین گاوں  سحم الجولان وادی رقہ میں واقع تھا ۔  اسی جنگ میں اسرائیل نے مصر کا جزیرہ نما  سینا اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا ۔ اس طرح سے غزہ کی پٹی میں موجود تمام فلسطینی اصل میں مصر کے شہری ہیں جنہیں اب مصر اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے ک لیے رفاہ کی گزرگاہ پر پابندیاں لگائے ہوئے ہے ۔ اسی جنگ میں اسرائیل نے اردن کے علاقے مغربی کنارے اور جنوبی لبنان پر بھی قبضہ جمایا تھا ۔ 1967 سے لے کر 1981 تک یہ تمام مقبوضہ علاقے اسرائیل کی فوج کے زیر انتظام تھے  اور اقوام متحدہ کی زبان میں یہ مقبوضہ عرب علاقے کہلاتے تھے ۔

مقبوضہ عرب علاقوں کا انتظام کرنے والی  Israeli Military Governorate کو 1980 میں تحلیل کردیا گیا ۔1979 سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں  1982 میں اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدہ امن ہوا جس کے تحت مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جس کے بعد اسرائیل نے بتدریج سینا کا علاقہ خالی کرکے مصر کے حوالے کردیا ۔ جبکہ جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم کردیا گیا اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارا اسرائیلی حکومت کے زیر انتظام کردیا گیا ۔  بعدازاں معاہدہ اوسلو کے تحت اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو بھی خالی کردیا اور فلسطینی قومی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت غزہ  اور مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی فلسطینی قومی اتھارٹی اور اسرائیل کو مشترکہ طور پر دے دیا گیا ۔

اب معاشی مفادات کو دیکھتے ہیں ۔ اسرائیل کی تیل کی ضروریات مفت میں ہی مقبوضہ علاقوں سے پوری ہوتی ہیں۔ اسے تیل کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ عراق ہے جہاں سے خام تیل پائپ لائن کے ذریعے ترکی پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے یہ اسرائیل کی ریفائنریوں میں پہنچایا جاتا ہے ۔ دوسرے نمبر پر یہ جولان کی پہاڑیوں سے تیل نکالتا ہے ۔ تیسرے نمبر پر لبنان کے ساحلی علاقے اور چوتھے نمبر پر  غزہ کے ساحلی علاقے سے تیل نکالتا ہے ۔ صدام کے دور میں یہ عراق کو تیل کی ادائیگی کرتا تھا ۔صدام کے آخری دور میں اسرائیل کو تیل کی ترسیل بند کردی گئی تھی ۔   جب سے امریکا نے عراق پر قبضہ کیا ، اس دن سے یہ تیل اسے مفت ملنے لگا ۔ اب یہ رعایتی نرخوں پر یا یوں کہیں کہ تقریبا مفت میں ملتا ہے ۔  جولان کی پہاڑیوں سے تیل کی پیداوار 2015 میں شروع ہوئی تھی اور یوں یہ شامی  تیل بھی اسرائیل مفت میں حاصل کرتا ہے ۔ غزہ کے ساحلی علاقوں سے بھی اسرائیل تیل نکال رہا ہے ۔ پہلے اس پر فلسطینی اتھارٹی کو آٹھ فیصد تک رائلٹی مل جاتی تھی۔ اب فلسطینی اتھارٹی نے نیا معاہدہ کیا ہے جس پر اسے محض چار فیصد رائلٹی ملے گی ۔ یعنی اسرائیل پہلے من پسند نرخ طے کرے گا اور پھر اس کا محض چار فیصد  ( اگر اس کا موڈ ہوا  )تو فلسطینی اتھارٹی کو دے گا اور اگر موڈ نہ ہوا تو دہشت گردی کے الزامات لگا کر اسے بھی روک دے گا ۔  کچھ یہی صورتحال لبنانی ساحل کی ہے ۔

چوری  کے اس تیل کی بدولت رواں برس فروری سے اسرائیل تیل برآمد کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل ہوگیا ہے ۔ اب ایک بات پر غور کریں ۔ عراق میں روز دھماکے ہوتے ہیں جس میں سیکڑوں افراد جان سے جاتے ہیں ۔ عراق میں داعش اور ایران دونوں کا اثر و نفوذ ہے ۔ جولان کی پہاڑیاں سے متصل شامی علاقے تو ہیں ہی داعش کے زیر انتظام ۔ غزہ میں حماس کا اثر ہے تو لبنان میں حزب اللہ کا ۔ ان سب میں ایک بات مشترک ہے ۔ کوئی بھی اسرائیل کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بناتا ۔ چاہے جو حالات ہوجائیں ۔ اسرائیل کو تیل کی ترسیل ایک دن تو کیا ، ایک لمحے کو نہیں رکی ۔ اس پر آپ بھی سوچیے گا کہ آخر ایسا کیا چمتکار ہے کہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو معاشی طور پر کوئی زک نہیں پہنچاتا ۔جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں ، کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے ۔

یہاں پر ایک اور سوال پیدا  ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل تیل خرید نہیں رہا تو کیا  ہوا مگر وہ فوجی اخراجات بھی تو کر رہا ہے ۔ چاہے تیل خرید کر ادائیگی کی جائے یا ان تنصیبات کی حفاظت کے نام پر مختلف گروہوں کو رقومات بانٹی جائیں ، بات تو ایک ہی ہے ۔ آئندہ آرٹیکل میں اس سوال کا جواب بوجھیں گے کہ اسرائیل کے فوجی اخراجات کیا ہیں ۔  اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 15, 2023

Al Aqsa Storm 6 طوفان الاقصیٰ حصہ  ششم و آخر

طوفان الاقصیٰ حصہ  ششم    و آخر

مسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

اب یہ سوالات زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں  کہ  حماس نے یہ حملہ کیا تو کیوں کیا ۔ اس کے پیش نظر کیا اہداف تھے ۔ اس سے اسرائیل کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا اور حماس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ۔ اور اب کیا ہونے کے خدشات ہیں ۔

کوئی بھی فریق اپنے حریف پر حملہ اس پر فتح پانے کے لیے کرتا ہے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے کا پہلا ردعمل کیا ہوگا ۔ یہی کہ وہ اپنے جدید ترین میزائیلوں سے حماس کے high value targets کو نشانہ بنائے گا ، دوسرا یہ کہ وہ غزہ پر چڑھ دوڑے گا اور اسے ایک مکمل جنگ میں تبدیل کردے گا۔ تیسرے یہ کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید علاقے بھی اپنی حدود میں شامل کرلے گا ۔ اس کے جواب میں ممکنہ حکمت عملی یہ ہوسکتی تھی کہ حماس نے اس کی منصوبہ بندی کی ہو کہ وہ اپنے high value targets  کو کہیں ایسی  محفوظ جگہ منتقل کردے جہاں پر وہ اسرائیل کی دسترس سے باہر ہوں ، پہلے سے خندقوں کا ایسا نظام ہو کہ میزائیلوں کی بارش سے کم از کم جانی نقصان ہو، غذائی اشیاء اور اہم ادویات کا ذخیرہ ہو تاکہ محاصرے کو اس وقت تک جھیلا جاسکے جب تک محاصرہ ختم یا نرم نہ ہوجائے ۔ حلیف ممالک کے ساتھ معاملات طے ہوگئے ہوں کہ جیسے ہی حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا ، مصر، شام اور اردن اپنے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے لیے اسرائیل پر حملہ کردیں گے اور حماس کو مطلوبہ سامان حرب بھی مہیا کریں گے کہ وہ فرنٹ لائن پر اسرائیلی فوج کا دوبدو مقابلہ کرسکیں اور کم از کم اسے غزہ میں نہ داخل ہونے دیں ۔

حملے کو آج آٹھواں  روز ہے  ۔ کہیں بھی ایسی صورتحال نظر نہیں آئی کہ حماس مقابل کھڑی  ہے یا اردن ، شام و مصر کو اپنے مقبوضہ علاقوں کی فکر ہے ۔ اس حملے کا سب سے بڑا نقصان کیا ہوا ، اسے دیکھتے ہیں ۔ اب تک یورپ و امریکا میں اسرائیل کو جارح کی حیثیت حاصل تھی ۔ پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ اپنی پروپیگنڈہ مشین کے ذریعے اسرائیل کو فلسطینیوں کو حاصل نرم گوشے کو hit کرنے کا موقع ملا اور اس نے کامیابی کے ساتھ اپنا پہلا ہدف حاصل کرلیا ۔ جعلی خبروں اور وڈیو کلپ کے ذریعے اسرائیلی پروپیگنڈہ مشین نے حماس کو داعش کے برابر میں لا کھڑا کیا ۔ وہ عیسائی اور یہودی جو اب تک فلسطین کے ساتھ تھے ، اب وہ  خاموش بیٹھ گئے ہیں ۔ یہ اسرائیل کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔

اسرائیل کو حاصل ہونے والے باقی فوائد تو سب کے سامنے آ ہی رہے ہیں ۔ یعنی فلسطینیوں کی نسل کشی میں مزید تیزی ، مزید علاقوں پر قبضہ وغیرہ وغیرہ ۔  اس واقعے کےنتیجے میں اسرائیل کواندرونی طور پر یہ فائدہ ہوا کہ اندرونی طور پر حکومت کے خلاف جو مہم چل رہی تھی ، اب اس پر قابو پانا ممکن ہوگیا ۔  مگر  نقصان یہ بھی ہوا کہ اس کے شہریوں کا اس پر سے ایک محفوظ ریاست ہونے کا اعتماد ختم ہوگیا ، اسرائیل کا ہر شہری اب دہری شہریت چاہتا ہے کہ جب بھی حالات خراب ہوں ، وہ اپنے خاندان سمیت کسی محفوظ جگہ پر بیٹھا ہو ۔

آخری سوال ۔ کیا یہ سب اسرائیل کے لیے اتنا ضروری تھا کہ اس نے بھی ایک نائن الیون کا ڈھونگ رچا ڈالا۔ دیکھنے میں اسے مزید علاقوں پر قبضے کی ایسی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی ، پولٹری مرغیوں کی طرح وہ جب چاہے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتا ہے ، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے ، مقبوضہ علاقوں پر اس کا قبضہ پہلے سے ہی مستحکم ہے ۔ تو پھر ایسا کیوں کیا گیا؟  

دیکھیں صہیونیت کے نزدیک دنیا پر قبضہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہیکل سلیمانی یا Third Temple کی تعمیر مکمل نہ ہوجائے ۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر وہ بیت المقدس کو شہید کرکے اس کی جگہ پر کرنا چاہتے ہیں ۔ ہیکل کی تعمیر کے لیے درکار انتہائی لازمی شرط سرخ بچھیا کا حصول ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ممکن بنا لیا گیا ہے ۔ اب رکاوٹ صرف اور صرف بیت المقدس کی شہادت ہے ۔ بیت المقدس کی شہادت میں اسرائیل کو اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ یورپ اور امریکا کے عیسائی ہیں ۔ مسلمان اسی میں غلطاں رہتے ہیں کہ بیت المقدس ان کا قبلہ اول ہے ۔ یہ عیسائیوں کے لیے بھی انتہائی اہم ہے ۔ اسرائیل عیسائیوں کی اس مزاحمت کو ختم تو نہیں کرسکتا مگر وہ اسے کمزور ضرور کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی ممالک اور شمالی امریکا کے حکمرانوں سے اسے کوئی خطرہ نہیں کہ وہ سب کٹھ پتلی ہیں ۔ خطرہ عوام سے ہے ۔ اب دیکھیں کہ حماس کے حملے کے نتیجے میں اسے اہم ترین کامیابی مل گئی  کہ  اب  وہ فلسطینیوں پر مظالم بھی ڈھا رہا ہے اور مظلوم بھی وہی ہے ۔  اب ایسی ہی کارروائیوں کے نتیجے میں  اگر مسجد الاقصیٰ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ذمہ دار بھی  طوفان الاقصیٰ والے ہی ٹھیریں گے ۔ بالکل اسی طرح  جیسے نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا وغیرہ کا حشر کردیا اور دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ۔ یہ وہ آزمودہ نسخہ ہے جو طوفان الاقصیٰ کی صورت میں آزمایا گیا ہے ۔

 اس دنیا میں ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 14, 2023

Al Aqsa Storm 5 طوفان الاقصیٰ حصہ پنجم 


طوفان الاقصیٰ حصہ پنجم 

مسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

طوفان الاقصیٰ کی ایک خصوصیت جس کا ​سب سے زیادہ تذکرہ ہے وہ ہے اس کی رازداری ۔ کہا گیا کہ اس نے تل ابیب کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ماسکو تک کو  بھی متحیر کردیا ۔ تل ابیب کو دفاع کا موقع ہی نہیں مل سکا جس کی وجہ سے اسے  جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا  ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔

ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا بلکہ  ہمیشہ پوری منصوبہ بندی  کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے  ہر لحاظ سے مکمل تیاری کی جاتی ہے۔ سامان رسد کی فراہمی کی  بھی اور field placement  کی بھی  ۔ اس کے لیے مہینوں قبل تیاری کی جاتی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے اس حملے کی تیاری حماس نے بھی کی ۔ سامان حرب  بھی جمع کیا ، حملے کی فل ڈریس ریہرسیل بھی کی اور فیلڈ پلیسمنٹ بھی ۔ تیاری کے یہ تینوں مراحل ایسے ہیں کہ اسے مکمل رازداری میں رکھنا  ناممکن  کام ہے ۔ سامان حرب جمع کرنے میں بھی کئی افراد رابطے میں آتےہیں ۔ فیلڈ پلیسمنٹ میں بھی سیکڑوں افراد کو بتانا پڑا ہوگا کہ انہیں کرنا کیا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر فل ڈریس ریہرسیل جس میں مصنوعی طور پر باڑھ  بھی لگائی گئی، اسے توڑنے کی پریکٹس بھی کی گئی ، اندر داخل ہو کر منظم کارروائی کی ایکسرسائیز بھی کی گئی  اور پیرا گلائیڈنگ کرکے اس کے پار اترا بھی گیا ۔

اسرائیل میں داخلی سلامتی کی ذمہ داری  شاباک کے پاس ہے جبکہ ملک سے باہر آپریشن کی ذمہ داری موساد کے پاس ۔ غزہ میں بھی اور سارے عرب ممالک میں موساد انتہائی متحرک ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مصر کی سیکورٹی ایجنسی بھی ۔ امریکا ، روس، چین اور یورپی ممالک کی ایجنسیاں ان سب سے الگ اپنا جداگانہ نیٹ ورک بھی چلاتی  ہیں اور معلومات کا اشتراک بھی کرتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ غزہ، لبنان ، مصر، شام و اردن میں جاسوسی کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ شوہر و بیوی اور باپ بیٹے بھی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کررہے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اتنی رازداری اسی وقت ممکن ہے جب کوئی ایک فرد ہی خودکش حملہ کرنے چل پڑا ہو۔ اس کے علاوہ اسرائیل اس وقت آرٹیفیشیل انٹیلی جینس اور دیگر جاسوسی سافٹ ویئر کے حوالے سے  دنیا بھر میں چھایا ہوا ہے ۔  غزہ کی سرحد کے ساتھ جو باڑھ لگائی گئی ہے ، اس کے پاس سے بلی بھی گزر جائے تو ان کے کنٹرول روم کو خبر ہوجاتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں رازداری سے حملہ ناممکنات میں سے ہے ۔ اب تو مصر نے باقاعدہ میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی سیکوریٹی ایجنسی نے اسرائیل کو اس حملے سے خبردار کیا تھا جسے اسرائیل نے بظاہر سنجیدہ نہیں لیا  اور مسکرا کر ٹال دیا ۔

اسرائیل کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی یہ بے خبری بالکل ایسے ہی تھی جیسے نائن الیون کے واقعے پر امریکی ایجنسیوں کی یا واقعہ ایبٹ آباد میں پاکستانی ایجنسیوں کی  یا بنوں و ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جیلوں پر حملے کی ۔  آپ دیکھیں گے کہ نائن الیون کے بعد ہر چیز کی نام نہاد تحقیقات ہوئیں مگر انٹیلی جینس کی ناکامی پر کہیں بات نہیں ہوئی ۔ نہ تو سینیٹ کی کسی کمیٹی میں اس پر پوچھ گچھ کی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی کو ذمہ دار ٹھیرا کر اسے سزا دی گئی ۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ یہ کوئی failure  تھا ہی نہیں ۔  

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ حملہ کیا نہیں گیا بلکہ کروایا گیا ۔ یہ تحقیق طلب کام ہے کہ اس میں حماس ٹریپ ہوئی یا  ان کا کوئی کلیدی فرد اسرائیل کے ہاتھوں استعمال ہوگیا ۔ یہ امریکا کے نائن الیون کی طرح مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا پروجیکٹ ہے ۔امریکی نائن الیون اور طوفان الاقصیٰ میں بہت ساری باتیں مماثل ہیں ۔  جس طرح نائن الیون کے فوری بعد  America under attack کا سلوگن دےدیا گیا تھا جسے بعد ازاں وسیع تر مفادات کے حصول کےلیے war on terror  سے بدل دیا گیا ۔ بالکل اسی طرح فوری  بعد ہی Israel under attack   کا سلوگن آچکا تھا ۔ ٹریڈ ٹاور پر حملوں کے بعد دنیا بھر میں ایک فضا ء بنا دی گئی تھی جس میں امریکا کو زخم خوردہ  کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ دنیا کے سامنے ایک تصویر پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ امریکی سی آئی اے ، ایف بی آئی اور پنٹاگون سب کے سب مکمل طور پر ناکام ہوگئے ۔ بتایا گیا کہ امریکا میں جانی نقصان بے انتہا ہوا ہے ۔ بار بار خبریں جاری کی گئیں کہ امریکی صدر اور نائب صدر خوفزدہ ہیں اور کہیں زیر زمین بنکر میں چھپے ہوئے ہیں ۔ اس سے اسلامی دنیا میں جشن کا ماحول پیدا ہوا اور بتایا گیا کہ یہ امریکا کی بربادی کا آغاز ہے ۔ کچھ ایسا ہی حماس کے حملے میں ہوا ۔ پہلی مرتبہ اسرائیلی اور مغربی میڈیا اسرائیلی جانی و مالی نقصانات کی ایک ایک تفصیل پیش کر رہا تھا ۔ جن میں سے اکثر جھوٹ نکلیں ۔ مثال کے طور پر بتایا گیا کہ صحرا میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈھائی سو افراد مارے گئے  جن میں سے آٹھ امریکی تھے ۔ بعد میں پتا چلا کہ اس ایونٹ میں ایک بھی فرد نہیں مارا گیا ۔ مغربی صحافیوں نے کیمرے کے سامنے بتایا کہ حماس کے لوگوں نے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کردیے ہیں ، جسے بائیڈن نے بھی دہرایا ۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا ۔

کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے ۔ طوفان الاقصیٰ میں بھی یہی ہوا ۔ جس طرح امریکی ٹریڈ ٹاور اور پنٹاگون سے ٹکرانے والے جہازوں کے مسافروں کے لواحقین کہیں پر پائے نہیں جاتے ، بالکل اسی طرح طوفان الاقصیٰ میں حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی اکثریت کا کہیں وجود نہیں ہے ۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے جواب میں جو گرفتاریاں کیں اور غزہ میں تین راتوں تک جو بہیمانہ بمباری کی جس کے نتیجے میں دو ہزار سے زیادہ  فلسطینی مارے گئے ، ان کا کہیں پر ذکر نہیں ہے ۔

یہاں پر سب سے اہم سوال تو یہی بنتا ہے کہ حماس نے یہ حملہ کیا تو کیوں کیا ۔ اس کے پیش نظر کیا اہداف تھے ۔ اس سے اسرائیل کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا اور حماس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ۔ اور اب کیا ہونے کے خدشات ہیں ۔ ان سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 13, 2023

Al Aqsa Storm 4 طوفان الاقصیٰ حصہ چہارم

طوفان الاقصیٰ حصہ چہارم

مسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

طوفان الاقصیٰ پر گفتگو سے قبل  قبل احباب کی جانب سے پوچھے گئے چند سوالوں کے جواب ۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب غزہ کی ناکہ بندی ہے ۔ خشکی ہو کہ سمندر ، ہر طرف اسرائیل کی تیز نگاہیں ہیں کہ اس کی مرضی و اجازت کے بغیر مکھی بھی اڑ کر پار نہیں جاسکتی تو پھر یہ بھاری بھرکم اسلحہ کیسے پہنچ جاتا ہے ۔ اسلحہ ہو یا دیگر اشیاء ، ان کی بڑی مقدار میں ترسیل کے لیے ٹرکوں کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ کندھے پر رکھ کر نہیں پہنچائے جاسکتے ۔

ضروری اشیاء کی غزہ میں ترسیل  کے لیے مصر میں موجود صحرائے سینا کا راستا اختیار کیا جاتا ہے ۔ یہاں سے سرنگیں غزہ تک بنائی گئی ہیں ، جہاں سے یہ اشیاء اندرون  فلسطین پہنچتی ہیں ۔ چونکہ یہ علاقہ حماس کے زیر انتظام ہے ، اس لیے ان اشیاء کی فلسطین میں ترسیل پر لگایا گیا ٹیکس ہی حماس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان سرنگوں کے محل وقوع سے اسرائیل یا مصر لاعلم ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ اسرائیل  نےآج سے پانچ برس قبل اپنی ایک ٹیکنالوجی دنیا کے سامنے پیش کی تھی جو اس نے غزہ  میں استعمال بھی کی ۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت کسی بھی گھر کے باہر سے اندر کے کسی بھی کمرے کے اندر  کی پوری عکسبندی کی جاسکتی ہے ۔ یہی صورتحال زیر زمین تہہ خانوں کی بھی ہے ۔ جب یہ ٹیکنالوجی پانچ برس قبل موجود تھی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب اس میں کتنی ترقی ہوگئی ہوگی اور ڈرونز کے ذریعے ایک ایک سرنگ میں ہونے والی تمام کارروائی دیکھی جاسکتی ہے اور انہیں تباہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔

ان سرنگوں کے ذریعے بھاری بھرکم کنسائنمنٹ کی منتقلی تقریبا ناممکن ہے ۔ دوسرا  راستہ سمندر کا ہے ۔ یہاں پر سوڈان سے سامان کشتیوں پر لایا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی بہت risky ہے ۔ اسلحہ کے لیے تیسرا راستہ فضائی ہے ۔ عمومی طور پر دنیا بھر میں اسمگلر یہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی کارگو طیارہ مطلوبہ علاقے پر سے نچلی پرواز کرتے ہوئے کارگو کو پیراشوٹ کے ذریعے پھینکتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ۔جنوبی  بھارت میں بھی  علیحدگی پسندوں تک ہتھیار پہنچانے کے لیے یہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حماس نے یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ سے حاصل کیا اور یہ نہ تو یوکرین سے ان تک پہنچایا گیا اور نہ ہی افغانستان سے  ان تک پہنچا ۔ جناب ایک بات سمجھیں کہ اس قسم کا اسلحہ بین الاقوامی  مارکیٹ میں کھلے عام نہیں ملتا ۔ یہ رولز رائس گاڑی کی طرح ہے کہ پہلے آپ آرڈر دیں گے ، پھر یہ آپ کے لیے تیار ہو کر آپ کو فراہم کیا جائے گا ۔ اسی لیے آرڈر دینے کے بعد فراہمی کا دورانیہ بعض اوقات پانچ برس تک بھی ہوتا ہے ۔ جس کو فراہم کیا جاتا ہے ، اس کے لیے ایک خاص سیریل نمبر ہوتا ہے جس میں پورا شجرہ پنہاں ہوتا ہے ۔ اسی لیے سیریل نمبر سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کس کو دیا گیا تھا اور کب دیا گیا تھا ۔

اسلحے کے بلیک مارکیٹ میں پہنچنے کے دو ذرائع ہوتے ہیں کہ کسی ملک میں جاری جنگ کے نام پر اسے اس ملک کے نام پر تیار کیا جائے اور پھر یہ راستے میں ہی  ادھر ادھر کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ دشمن نے اس پر قبضہ کرلیا ۔ اس اسمگلنگ میں بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس ملک میں یہ اسلحہ پہنچا ہے ، وہی ملک اسے کسی دوسرے ملک کے حوالے کردے ۔ یہ طریقہ کار افغانستان پر روسی حملے کے دوران استعمال کیا گیا تھا ۔ افغانستان میں لڑنے کے لیے مجاہدین کو اسلحے کی ضرورت تھی اور امریکا و یورپ اپنا اسلحہ دینا نہیں چاہ رہے تھے کہ  وہ اسے افغانستان کی مقامی مزاحمت دکھانا چاہ رہے تھے ۔ اگر ان کا سلحہ پکڑا جاتا تو وہ پس منظر سے پیش منظر پر آ جاتے ۔ اس کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ مصر کو روس نے کلاشنکوفیں فراہم کی تھیں ۔ وہ کلاشنکوفیں امریکا نے مصر سے لے کر پاکستان کے حوالے کیں جو مجاہد تنظیموں  کے پاس پہنچیں اور اب روز میڈیا میں خبریں آنے لگیں کہ روسی فوج فلاں محاذ پر پسپا اور بھاری اسلحہ مجاہدین کے ہاتھ لگا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مورچے سے پانچ کلاشنکوفیں اور چند راونڈ ہاتھ آئیں گے ۔ یہ تو لڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔ اس کے لیے بھاری رسد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلحہ انتہائی مہنگی  جنس ہے ۔ ممالک اسے خریدنے پر قرضوں تلے دب جاتے ہیں ۔ پھر بلیک مارکیٹ میں ان کے دام کئی گنا مزید بڑھ جاتے ہیں تو یہ حماس کہاں سے اس کی قیمت ادا کرسکتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایران نے ادائیگی کی تو اس کے پاس تو خود زرمبادلہ کا بحران ہے ۔ مندرجہ بالا گفتگو سے ہم دو نتیجے نکال سکتے ہیں ۔ پہلی بات  یہ کہ اسلحے کی جو بھی بھاری کنسائنمنٹ غزہ تک پہنچائی جارہی تھی  ، وہ یا تو سمندری راستے سے پہنچی  یا فضاء سے ۔ دونوں صورتوں میں اسرائیلی ملی بھگت شامل تھی  کہ ڈلیوری کے وقت وہ پراسرار طور پر غائب تھے ۔  اور اس اسلحے کی ادائیگی وہی لوگ یا طاقت کر رہی تھی  ، جنہیں یہاں پر دلچسپی ہے ۔ کسی بھی ملیشیا کی ضرورت وہی پورا کرتا ہے جسے اس ملیشیا سے کام لینا درکار ہوتا ہے ۔ طالبان اس وقت تک پاکستان کی آنکھ کا تارا تھے جب تک پاکستان کے لیے کام کے تھے ۔ اس کے بعد وہی دہشت گرد ٹھیرے۔ ان کا باقاعدہ شکار کیا گیا ، انہیں پکڑ پکڑ کر گوانتا ناموبے اس طرح پہنچایا گیا۔ اور اس طرح امریکا کے حوالے کیا گیا کہ حوالگی کے وقت وہ الف برہنہ تھے ۔

ایک بات اور دیکھیں کہ پوری دنیا میں  مطلوبہ اسلحہ  تو جنگجووں تک بہ آسانی اور بہ افراط پہنچ جاتا ہے مگر دیگر اشیاء نہیں پہنچ پاتیں ۔ آپ کو افریقا میں ایک جنگجو نظر آئے گا کہ وہ جدید ترین رائفل لیے کھڑا ہے ، اس کے پاس ایمونیشن بھی خوب ہے مگر پاوں میں چپل نہیں ہے اور وہ منرل واٹر کی بوتل کو پچکا کر اس پر رسی باندھ کر بطور چپل استعمال کررہا ہے ۔ اسی طرح آپ کو بلوچستان، اندرون سندھ اور خیبر پختون خواہ و افغانستان میں جنگجووں کے پاس ہر طرح کا اسلحہ نظر آئے گا مگر ان کی مفلوک الحالی بھی ساتھ ہی نظر آرہی ہو گی ۔ ان کے پاس حرکت میں آنے کے لیے نئی نئی گاڑیاں بھی ہوں گی ، پٹرول بھی خوب  ہوگا یعنی ہر وہ چیز ہوگی جو مشن کے لیےدرکار ہوگی مگر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ۔

ایک سوال کا جواب تو مل گیا کہ القسام بریگیڈ کے پاس اسلحہ پہنچنے کا ممکنہ طریقہ کار کیا تھا ۔ دوسرے سوال کا جواب بوجھنا باقی ہے کہ  اتنا بڑا حملہ ہوگیا اور اسرائیلی ایجنسیوں کو اس کی بھنک تک نہیں پڑی ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 12, 2023

Al Aqsa Storm 3 طوفان الاقصیٰ حصہ سوم

طوفان الاقصیٰ حصہ سوم

مسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

القسام بریگیڈ  کے جنگجووں نے طوفان الاقصیٰ میں امریکی M4 assault رائفلیں استعمال کیں ۔ ملین ڈالر سوال یہ تھا کہ آخر حماس کے پاس  یہ امریکی ہتھیار پہنچے کیسے ۔ اس حوالےسے دو ہی آپشن ہیں کہ یہ یا تو افغانستان سے حماس تک پہنچے یا پھر یہ یوکرین سے جہاں پر امریکا نے روس سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ پہلا شک افغانستان پر ہی کیا گیا کہ طالبان نے یہ حماس کو فراہم کیے ہوں گے تاہم یہ سوال خود ہی اس لیے ختم ہوگیا کہ  افغانستان میں امریکی ہتھیار بھاری تعداد میں طالبان کے پاس موجود ہی نہیں  ہیں ۔ امریکا افغانستان میں کوئی بھی کارآمد چیز چھوڑ کر نہیں گیا ، وہ تو اپنا اسکریپ بھی اٹھا کر لے گیا ہے ۔ افغانستان میں جو بھی امریکی ہتھیار موجود ہیں ، وہ ہتھیار وہ ہیں جو امریکا نے افغانستان میں  داعش جیسے اپنے پٹھووں کے پاس چھوڑے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے داعش جیسے گروپوں کو یہ ہتھیار کسی خاص مقصد کے لیے  فراہم کیے گئے ہیں نہ کہ ان سے لے کر آگے فراہم کردیے جائیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ان کا ایمونیشن بھی اتنا ہی اہم ہے اور فی الوقت یہ افغانستان میں اتنی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے ۔

اب دوسرا آپشن یوکرین بچتا ہے جہاں سے یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کو فراہم کیے گئے ۔ امریکا میں ریپبلکن رکن کانگریس Marjorie Taylor Greene نے یہی سوال اٹھایا ہے ۔ گرینی کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے پاس موجود ہتھیاروں کے سیریل نمبر لے کر تحقیقات کی جائیں کہ یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کے پاس کہاں سے پہنچے ۔ اس سوال پر پورے امریکا میں چپ لگ گئی ہے اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ نیوز ویک نے اپنے تازہ شمارے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے شواہد نہیں ہیں مگر اس کے پاس اطلاعات ہیں کہ طوفان الاقصیٰ میں حصہ لینے والے افراد کی تربیت بھی یوکرین میں ہی ہوئی ہے ۔

یہاں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کی موجودہ قیادت مکمل طور پر اسرائیل نواز ہے ۔ یوکرین کا صدر ولادمیر زیلنسکی نہ صرف یہودی ہے بلکہ کئی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا علی الاعلان اظہار  بھی کرچکا ہے تو پھر یوکرین سے امریکی ہتھیار کیوں  القسام  بریگیڈ کو پہنچے اور کیوں کر ان کی تربیت یوکرین میں ممکن ہوئی ۔ ایسے معاملات عام آدمی کے لیے اس لیے سمجھنا مشکل ہوجاتے ہیں کہ اس کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا مطلب وہی ہے جو ہونا چاہیے ۔  مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح  سیاست میں دوستی اور دشمنی کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوست دشمن میں اور دشمن دوست میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح عالمی بساط پر دوستی اور دشمنی کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا ۔ ایک محاذ پر حلیف طاقتیں دوسرے محاذ پر حریف بھی نظر آئیں گی ۔ یہ ایک complex situation  یا یوں کہیں کہ پیچیدہ صورتحال ہے ۔ اسے ہم مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں ۔

امریکا اور ترکی ناٹو کے اہم رکن ممالک ہیں ۔عراق پر امریکی حملوں میں ترکی کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ مگر یہی امریکا آزاد کردستان کے معاملے پر روز ترکی کے کان مروڑتا ہے ۔ ترکی اور امریکا مل کر شام میں اسد حکومت کے خلاف ہر طرح کی فوجی و مالی مدد فراہم کررہے ہیں ۔ شام میں ترکی کا وہی کردار ہے جو افغانستان میں پاکستان کا تھا مگر یہی امریکا ترک حکومت کے تمام تر غم و غصے اور احتجاج کے باوجود شام میں کرد باغیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے ۔ امریکا اور ترکی و عرب ممالک کے خلاف روس بشار الاسد حکومت کی پشت پر ہے اور ترک شہریوں کو شام کی سرحد پر روز نشانہ بناتا ہے ۔ مگر اسی روس کا تیل دنیا بھر میں سپلائی کرنے کے لیے ترکی نے اپنی بندرگاہ تک زمینی پائپ لائن کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں ۔ ترکی نے روس سے میزائل شکن دفاعی نظام بھی خریدا ہے ۔  امریکا  داعش کے خلاف روز ایک نئی مہم شروع کرتا ہے ۔ داعش کے نام پر ہر طرح کی طالع آزمائی کرتا ہے مگر اس کا قریب ترین حلیف اسرائیل اسی داعش کو ہر طرح کی زمینی و فوجی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اسی امریکا کی ایجنسی سی آئی اے پر داعش کی پیدائش و حمایت کا الزام ہے ۔ یہ منافقت کا مختصر ترین احوال ہے ۔

خود پاکستان میں دیکھ لیں ۔ افغانستان پر روسی حملے کے خلاف افرادی قوت کی فراہمی کا اولین ذریعہ جماعت اسلامی تھی ۔ جماعت اسلامی کے پاکستان میں اور افغانستان میں افرادی قوت ہی کی بناء پر ضیاء الحق کے لیے ممکن ہو سکا تھا کہ مزاحمت کی تحریک کھڑی کرسکتا مگر اسی جماعت اسلامی کے اثر کے خاتمے کے لیے وہی ضیاء الحق کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھ رہا تھا ۔ آئی ایس آئی جماعت اسلامی کی افرادی قوت کے بغیر کشمیر میں کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ جماعت اسلامی بھی بخوشی شہادتیں پیش کررہی تھی ۔ اسی زمانے میں کراچی میں آئی ایس آئی کی کٹھ پتلی ایم کیو ایم روز جماعت اسلامی کے کارکنان کو اغوا کرکے ان پر بدترین تشدد کررہی تھی ۔ ایسا تشدد کہ ایک ایک لاش پر تین سو سے زاید تشدد کے نشانات ہوتے تھے ، ناخن پلاس سے کھینچ لیے جاتے تھے، ڈرل سے زندہ جسم میں سوراخ کیے جاتے تھے اور ایک ایک جوڑ چورا کردیا جاتا تھا ۔ مگر نہ تو جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے آقاوں سے کوئی سوال کیا اور نہ ہی رنجش ہی دکھائی ۔ ایک جگہ جماعت اسلامی آنکھوں کا تارا تھی تو دوسری جگہ ایم کیو ایم ۔ دونوں کے لیڈروں کے اپنے اپنے مفادات تھے جس پر دونوں ہی راضی خوشی تھے ۔

یہاں تک تو بات واضح ہوگئی کہ القسام  بریگیڈ کے پاس امریکی ہتھیار ہیں اور انہوں نے یہ لیے  نہیں ہیں بلکہ پہنچائے گئے ہیں ۔ اس مرحلے پر مزید دو سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ اسلحہ ان تک پہنچایا کیسے گیا اور دوسری بات کہ اتنا بڑا حملہ ہوگیا اور اسرائیلی ایجنسیوں کو اس کی بھنک تک نہیں پڑی ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔

ان سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 11, 2023

Al Aqsa Storm 2 طوفان الاقصیٰ حصہ دوم

طوفان الاقصیٰ حصہ دوم

مسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

طوفان الاقصیٰ کے تحت حملہ حماس نے کیا ہے ۔ حماس  مخفف ہے حرکت المقاومۃ الاسلامیہ کا ۔ اس کا قیام 1987 میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب فلسطین میں پہلی انتفاضہ چل رہی تھی ۔ بنیادی طور پر یہ مصر کی اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ تھی ۔ اس کے بانی شیخ احمد یاسین کو 2004 میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس کی ایک شاخ اردن میں بھی قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ خالد مشعل تھے  ۔اب اسمٰعیل ہانیہ ہیں ۔ وہی اب حماس کے سیاسی بازو کے سربراہ ہیں ۔  شاہ عبداللہ اول کے انتقال کے بعد اردن میں حماس کے دفاتر بند کرکے اس کے رہنماوں کو جلا وطن کردیا گیا ۔  حماس کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ سماجی  کام کرتا ہے ، جس کے تحت تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ  مسلح جدوجہد میں حصہ لیتا ہے ۔  مسلح جدوجہد میں حصہ لینے والے بازو کو عزالدین القسام بریگیڈ ز کا نام دیا گیا ہے ۔ عرف عام میں اسے القسام بریگیڈ کہا جاتا ہے ۔ طوفان الالقصیٰ کے تحت آپریشن اسی القسام بریگیڈ نے کیا ہے ۔

اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی حماس کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات رہے مگر  یہ ہنی مون زیادہ عرصے نہیں چل سکا ۔ سرکاری طور پر تو سعودی عرب نے کبھی حماس کو فنڈز فراہم نہیں کیے مگر سعودی عرب حماس کے لیے ایک بہترین پناہ گاہ تھی جہاں سے وہ فنڈز بھی جمع کرتے تھے اور اس کے رہنما اسے اپنے دوسرے گھر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ تاہم امریکا کی فرمائش پر یہ ہنی مون جلد ہی ختم ہوگیا اور سعودی عرب میں حماس کے رہنماوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔ انہیں گرفتار کرکے ملک بدر بھی کیا گیا اور بعض اوقات جیلوں میں بھی بند رکھا گیا ۔ اس دوران حماس قطر کے قریب تھی اور اسے قطر کی ہر طرح کی معاونت شامل رہی ۔

بعدازاں قطر بھی امریکی دباو میں آگیا اوریوں  حماس کو ایران کی صورت میں ایک نیا ساتھی مل گیا ۔ یہ سنگت دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے والی مثال کے مصداق تھی ۔ شام میں بشار الاسد کی حمایت نہ کرنے پر حماس اور ایران میں پانچ سال تک دوری بھی رہی مگر بعد ازاں پھر سے یہ ایک دوسرے کے سجن  بن گئے ۔

طوفان الاقصیٰ کے تحت آپریشن کے شروع ہوتے ہی سب کی آنکھیں ایران کی طرف اٹھ گئی تھیں کہ گزشتہ پانچ برسوں سے حماس کو مالی و سیاسی معاونت صرف اور صرف ایران سے حاصل تھی ۔طوفان الاقصیٰ  کی کارروائی پر تھوڑا سا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس حملے میں تباہی دیسی ساختہ  راکٹوں نے نہیں پھیلائی بلکہ ان چھوٹے ہتھیاروں نے پھیلائی جو القسام بریگیڈ کے جنگجووں کے ہاتھوں میں تھے ۔  تھوڑا سا اور باریک بینی سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ چھوٹے  ہتھیار ایرانی ، ترک یا روسی ساختہ نہیں ہیں۔ ماضی قریب میں ایرانی اور ترک ڈرونز نے دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان فیصلہ کن کردار ترک ڈرونز نے ہی ادا کیا تھا ۔ اسی طرح یوکرین کی جنگ میں روس کا اہم ترین ہتھیار ایرانی ڈرونز ہیں ۔ طوفان الاقصیٰ میں کہیں بھی یہ ڈرونز نظر نہیں آئے ۔ قسام بریگیڈز کے ہاتھوں میں جو بھی ہتھیار تھے وہ سب کے سب امریکی ساختہ تھے ۔

یہاں پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ حماس  کو امریکا و اسرائیل کی ایماء پر اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے تو پھر ان کے پاس امریکی ہتھیار کیسے ۔ ایران خود پابندیوں کا شکار ملک ہے ، وہ تو یہ ہتھیار حماس کو پہنچا نہیں سکتا اور اگر یہ ہتھیار ایران نے بلیک مارکیٹ سے لے کر حماس کو دیے ہیں ، تو خود کیوں نہیں لے لیے یا پھر یہ ہتھیار شام میں کیوں استعمال نہیں کیے ۔ اس جیسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات کو جانے بغیر فلسطین و اسرائیل کی صورتحال کو سمجھنا مشکل تو کیا ناممکن ہے ۔ ان سوالات کا جواب اگلے آرٹیکل میں بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

Older Posts »

زمرے