Posted by: Masood Amwar | ستمبر 26, 2012

حرمت رسول اور ہم حصہ آخر

مسعود انور

حرمت رسول ﷺ کے لئے مظاہروں کے سلسلے میں سب سے اہم بات تو ان رہنماوں کو ہی بتانا تھی کہ کب مظاہرہ کرنا ہے، کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ یہ عام آدمی کو کیا معلوم کہ اس کو اپنا احتجاج کہاں اور کیسے ریکارڈ کروانا ہے کہ اس کا اثر ہوسکے۔ مگر اس پورے سلسلے کو آپ بغور دیکھئے۔ آپ کو یہ رہنمائی کہیں پر بھی اور کسی طور پر بھی نظر آرہی ہے۔ایک عام آدمی کے جذبات کو مشتعل کیا گیا اور جب وہ عشق رسول ﷺ میں باہر نکل آیا تو اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ کیا امریکی قونصل خانوں اور سفارت خانوں کو جلا کر رسول کی بے حرمتی کے منظم سلسلے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔اس کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔ اس سے تو ان کو ہم اپنے اوپر حملے کا ایک اور جواز پیش کرتے ہیں۔ احتجاج کرنے کا طریقہ وہ اختیار کرنا چاہئے کہ ان کے مفادات پر زد پڑے۔

سب سے پہلے پاکستان سے شروع کرتے ہیں۔ جب ناٹو سپلائی سرکاری طور پر پاکستان سے کھلی نہیں تھی تو دفاع پاکستان کونسل اور تحریک انصاف کے رہنما روز اس کے بارے میں الٹی میٹم جاری کرتے تھے۔ جب یہ کھل گئی تو کیا ہوا۔ محض لاہور سے لے کر اسلام آباد تک کا ایک سرکاری مارچ۔ پھر سب بھول گئے۔ یاد دلایا گیا تو کہا گیا کہ رمضان کے بعد اس کے خلاف بھرپور احتجاج ہوگا۔ اب تو عید کو گزرے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس احتجاج کے موقع پر اعلان کرتے کہ افغانستان کو صرف اور صرف غذائی اشیاءکی ترسیل کی اجازت دی جائے گی ۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ تعمیرات کے لئے بھاری مشینری بھی نہیں، بنکرز کی تعمیر کے لئے سیمنٹ بھی نہیں اور تیل و پٹرول بھی نہیں۔ کراچی سے لے کر چمن تک اور واہگہ سے لے کر طورخم تک کی انسانی ناکہ بندی کردیتے ۔ اس وقت تک کے لئے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔ مگر ایسا تو کہیں نہیں ہوا۔ کیا یہ تمام قیادت بھولی ہے؟

حسین حقانی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس نے ڈھائی لاکھ سے زائد امریکیوں کو پاکستان کے ویزے جاری کئے۔ سب کے نہیں تو مگر ان میں پیشتر کے جو ان کے سرخیل ہیں، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں رہائش گاہوں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ان رہائش گاہوں کے باہر چند پرامن مظاہرے ہی معاملات کو درست کرنے کے لئے کافی تھے۔ مگر ایسا کرنے کا ایک بار بھی نہیں سوچا گیا۔ کیا پوری قیادت اس معاملے پر بھی بھولپن کا شکار ہے؟

مصر میں اخوانوں کی حکومت ہے۔ یہ بھی کچھ نہیں کرتے صرف ماہی گیروں کی کشتیاں پورے نہر سوئز میں کھڑی کردیتے۔ کہتے کہ جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جائیں گے، دنیا میں کوئی تجارت نہیں ہوگی۔ ایسا ہوتے ہی ایک گھنٹے کے اندر اندر دنیا میں بھونچال آجاتا۔ مگر وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیا ان کی بھی قیادت بھی بھولی ہے؟

ترکی میں رفاہ کی حکومت ہے۔ یہ حکومت ایسے ہی نہیں بن گئی، انہوں نے بھی پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس کی قیادت بھی انقرہ میں ڈٹ جاتی اور انقرہ میں ناٹو کے ہیڈ آفس کا گھیراو کرلیتی اور کہتی کہ جب تک ہماری بات نہیں مانی جائے گی ناٹو کی تمام سرگرمیاں انقرہ سے معطل رہیں گی۔ ایسا ہوتے ہی ناٹو کے تمام رکن ممالک میں بھی بھونچال آجاتا۔ مگر وہاں بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیا ان کی قیادت بھی بھولپن کا شکارہے؟

میں نے اور کسی ملک کا تذکرہ اس لئے نہیں کیا کہ کہا جائے گا کہ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں آمریت ہے۔ اس لئے وہاں پر احتجاج ممکن نہیں۔ جان لیجئے کہ اگر صرف ان تین ممالک میں ہی اس پر عمل ہوجائے تو اب تک اس ناپاک فلم کے بنانے والے سارے ملعون پابند سلاسل ہوتے اور آئندہ بھی کسی کو اس کی ہمت نہیں ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان تینوں ممالک کی مذہبی و سیاسی قیادت بھولپن کا شکار نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔

وہ جلاو گھیراو کے ذریعے عوامی جذبات کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کیا شیطان رشدی کو اس کی گستاخی کی سزا مل گئی ؟ نہیں۔ اس کے بعد اس سے بڑا اقدام ہوا۔ اب چند سال کے بعد اہانت کی ڈگری میں مزید اضافہ ہوگا اور ہماری بکاو قیادت اسی طرح عوام کو اس کی عادی بناتی رہے گی۔ اصولا تو اب تک جو بھی جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ اس کے ازالے کے لئے مقدمہ اسی مذہبی و سیاسی قیادت کے خلاف درج ہونا چاہئے جس نے قوم کی نہ تو درست رہنمائی کی اور نہ ہی اس کا توڑ کرنے کی کوئی درست ترکیب۔ یہ بکاو قیادت دام ہم رنگ زمیں کے مصداق ، نعرے تو مخالف بلند کرتی ہے مگر اس کا ہر ہر عمل ان ہی اسلام دشمنوں کے مفاد میں جاتا ہے۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔

 

 

 


Responses

  1. very much positive aproach, but is it posibble to acept by our own leadership?

    پسند کریں

  2. Nice Article
    I believe Islamic Republic did full protest without any damage internally, same with Hezbollah
    Rushdi is living in a cage, not free

    Love

    Date: Wed, 26 Sep 2012 03:27:02 +0000
    To: sdahsan@hotmail.com

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے