Posted by: Masood Amwar | اکتوبر 15, 2012

اکتوبر سرپرائز

مسعود انور
masoodanwar.wordpress.com

امریکی سیاست نامہ میں اکتوبر سرپرائز ایک اصطلاح کی حیثیت رکھتا ہے۔ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل کوئی بھی ایسا واقعہ جو ان انتخابات پر اثرا نداز ہوسکے اس کو اکتوبر سرپرائز کا نام دیا جاتا ہے۔اس اصطلاح کا آغاز 1972 سے اس وقت ہوا جب ریپبلکن رچرڈ نکسن اورڈیموکریٹ جارج میک گورن آمنے سامنے تھے اور ویتنام کی جنگ کے باعث پورا امریکا غصہ میں تھا۔ اس وقت امریکا ویتنام کی جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات کررہا تھا۔ جنگ کے باعث نکسن کی مقبولیت کا گراف انتہائی نیچے تھا اور اس کی شکست کی پیشگوئی ایک عام بچہ بھی کررہا تھا۔

امریکی صدارتی انتخابات سے محض بارہ روز قبل 26 اکتوبر 1972 کو امریکا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہنری کسنجر نے وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ویتنام جنگ کے ختم ہونے کا مژدہ سنایا۔ اس پریس کانفرنس کے ساتھ ہی تما م اشاریے الٹ گئے اور نکسن نے میساچوسٹس کے علاوہ ہر ریاست میں اپنے حریف کو شکست فاش دی۔ گو کہ یہ جنگ اس کے ایک سال بعد ختم ہوئی اور امریکی فوجی 1975 تک ویتنام میں موجود رہے مگر یہ اعلان کام کرگیا۔

اس کے بعد 1980 میں رونالڈ ریگن کو یہ خوف تھا کہ ان کے حریف جمی کارٹر آخری لمحے میں ایران میں قید امریکی سفارتکاروں کی رہائی کی ڈیل نہ کرجائیں ۔ اس طرح کارٹر دوبارہ منتخب ہوجاتے۔ اس کے لئے ریگن نے ایرانی قیادت سے رابطے کئے اور کہا کہ امریکی یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کی جائے۔ برسراقتدار آنے کے بعد وہ ایران کو مزید رعایتیں بھی دیں گے۔ اس طرح ریگن انتخابات جیت چکے تھے۔ حالیہ دور میں 29 اکتوبر 2004 میں اسامہ بن لادن کی ایک وڈیو تقریر الجزیرہ نے نشر کی جس میں بش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وڈیو کے نشر ہوتے ہی بش ہارتی ہوئی صدارتی جنگ دوبارہ جیت چکے تھے۔ یہ تو امریکی صدارتی انتخابات کے چند اہم واقعات تھے ورنہ ہر انتخابات سے قبل اس طرح کے اکتوبر سرپرائز معمول بن چکے ہیں۔

اب پھرچھ نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور امریکیوں سمیت پوری دنیا اکتوبر سرپرائز کے انتظار میں ہے جو امریکی رائے عامہ کو تبدیل کرسکے۔ یہ اکتوبر سرپرائز کیا ہوسکتا ہے۔اس پر دنیا خوف کا شکار ہے۔ یہ ایران پر حملہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں تیل و سونے کی قیمتوں میں زبردست اضافہ بھی اور پوری دنیا میں غذائی قلت بھی۔

اس وقت امریکا اوراسرائیل اپنی تاریخ کی وسیع ترین جنگی مشقوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ مشقیں اسی برس فروری مارچ میں ہونا تھیں مگر جیسے ہی ایران پر پابندیوں کا معاملہ یوروپین یونین نے موخر کیا ، اس کے ساتھ ہی بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے ان مشقوں کو بھی موخر کیا جاتا رہا۔ جولائی سے ایران پر پابندیاں لگتے ہی ان مشقوں کی نئی تاریخ بھی آگئی اور اب یہ 21 اکتوبر سے شروع ہوں گی۔ یہ فوجی مشقیں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کی تاریخ کی بھی ہر لحاظ سے بڑی ہیں۔ ان کا بجٹ، اس میں شامل فوجیوں کی تعداد اور اس میں استعمال ہونے والا جدید ترین اسلحہ، ان سب کا ماضی میں ہونے والی کسی بھی فوجی مشق سے کوئی تقابل نہیں ہے۔

ان فوجی مشقوں میں امریکی فضائیہ کے تین ہزار اہلکاروں کو حصہ لینا تھا مگر اب اس میں پندرہ سو اہلکار حصہ لیں گے۔ تاہم اسرائیلی سرزمین پر پورے تین ہزار امریکی فضائیہ کے اہلکار پہنچیں گے مگر اس میں سے نصف آرام کریں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے ۔ ان اہلکاروں کے علاوہ زمینی دستے بھی اس مشق میں حصہ لیں گے۔ مگر ان مشقوں کا ا صل مقصد فضائی حملوں سے بچاو ہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مشقیں ایران پر حملے کی صورت میں اسرائیل پر ہونے والے ممکنہ حملے سے بچاو کی ایکسرسائیز ہیں۔ ان مشقوں کی ایک اور اہم بات اس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ مثلا اس میں پیٹریاٹ میزائیل کا جدید ترین ایڈیشن Patriot PAC-3 missile system بھی لایا جارہا ہے۔ اس کو لانے کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایران سے فائر ہونے والے میزائلوں کو اگر پرانے نظام کے تحت راستے میں تباہ نہ کیا جاسکا تو اس نئے نظام کو استعمال میں لایا جائے گا۔

ان مشقوں کی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کی وزارت دفاع نے رے تھیون Raytheon کمپنی کو 361 ٹام ہاک کروز میزائیل بنانے کا ٹینڈر پہلے ہی دے دیا ہے۔ اس کی مالیت 338 ملین ڈالر ہے۔ گو کہ یہ میزائیل 2014 میں ہی حوالے ہی کئے جاسکیں گے مگر فوجی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس آرڈر کا مقصد موجودہ ٹام ہاک میزائیلوں کی جگہ کو پر کرنا ہے جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ایران پر حملے میں استعمال کئے جائیں گے۔

ایران پر حملہ امریکہ کے صدارتی انتخاب سے قبل ہوگا یا بعد میں، اس پر اس وقت پوری دنیا میں بحث بھی ہورہی ہے اور خوب سٹہ بھی کھیلا جارہا ہے۔ بعض مبصرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ نہ صرف اسرائیل امریکی صدارتی انتخاب سے قبل ہی ایران پر حملہ کردے گا بلکہ امریکہ و اسرائیل فوجی مشقیں بھی نہیں ہوں گی۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فوجی مشقیں تو بہانہ ہیں امریکی جدید ترین میزائیلوں کی اسرائیل منتقلی کا۔

یہ اکتوبر سرپرائز کیا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں ابھی تک قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ مگر ایک اہم بات ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ اچانک ہی شرو ع نہیں ہوجاتی۔ اس کے لئے برسوں تیاریاں کرنی پڑتی ہیں۔ اور امریکا و اسرائیل کی تیاریاں بتاتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔


تبصرہ کریں

زمرے