Posted by: Masood Amwar | جولائی 13, 2013

مصر ۔ عالمی ردعمل

http://www.masoodanwar.com
anwar.masood@yahoo.com

مسعود انور

مصر میں آگ اور خون کا کھیل پورے زور و شور سے جاری ہے۔قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر روز معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے اور پوری دنیا دم سادھے ہوئے ہے۔ مرسی کون تھے اور ان کا پس منظر کیا تھا۔ اس کو چھوڑیئے ۔ مرسی کچھ بھی تھے مگرپہلی حقیقت یہی ہے کہ وہ مصر کے منتخب صدر تھے۔ وہ مصر میں آمریت کے ایک طویل دور کے خاتمے کے بعد مصر کے پہلے منتخب صدر تھے۔ پہلے چند ہزار افراد کو تحریر اسکوائر پر جمع کیا گیا۔ یہ چند ہزار افراد بھی کون تھے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک مغربی میڈیا سے ہی دیکھی جاسکتی ہے کہ انہوں نے صرف چار روز کے دھرنے کے دوران ایک ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی ۔ اس درندگی کا شکار ہونے والوں میں مغربی میڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی تھیں جنہوں نے اپنے اوپر گذرنے والی خوفناک صورتحال کو اپنے اپنے سفارتخانوں کو بھی آگاہ کیا اور اپنے اداروں کو بھی۔ یہ مصرکے نمائندہ افراد نہیں تھے بلکہ مجرموں کا جتھہ تھے جنہیں جمع ہی بدمعاشی کے لئے کیا گیا تھا اورانہوں نے وہی کچھ کیا جو ایک مجرم کرسکتا ہے۔
مصر میں کیا کچھ ہوا اور کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔یہ اہم ترین بنیادی سوالات ہیں۔ اس پر تو ہم بعد میں گفتگو کریں گے پہلے ذرا مصر کے حالات پر بین الاقوامی ردعمل دیکھتے ہیں۔ ایک منتخب حکومت کو الٹنے کے لئے وہاں کی فوج نے باقاعدہ ڈیڈ لائن دی۔ اس پر پوری دنیا خاموش رہی اور مرسی کو لعن طعن کرتی رہی کہ تحریر اسکوائر پر جمع مجرموں کے مطالبات کو فوری تسلیم کرو۔ یہ مطالبہ کیا تھا کہ فوری طور پر حکومت سے مستعفی ہوجاوٴ۔ جب مرسی نے اس پر جمہوری طریقے سے عوامی رائے جاننے کے لئے ریفرینڈم کی بات کی تو اس تجویز کو مسترد کردیا گیا۔ پھر فوجی جنرل نے کہا کہ اس مطالبے پر وہ بہ زور بندوق عملدرامد کروائیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
اس کے بعد جب اصل مصری عوام نے احتجاج کیا تو ان پر گولیوں کی بارش کردی گئی۔ امریکا، برطانیہ سمیت جمہوریت کے سارے چیمپئن مصری جنرل کی دھمکی پر بھی خاموش رہے اور مصری عوام پر خونی تشدد پر بھی ان کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ سول سوسائٹی بھی کہیں گرمیوں کی چھٹیوں پر گئی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں کہیں کسی کونے سے بھی اس جبر کے خلاف آواز بلند نہیں ہوئی۔ بین الاقوامی مین اسڑیم میڈیا بھی یہ بھول چکا ہے کہ ایک غاصب جنرل ایک منتخب صدر کو بندوق کے زور پر قصر صدارت سے زنداں میں منتقل کرچکاہے۔جمہوریت کو قتل کیا جاچکا ہے اور ایک ملک کے عوام کو ان کے حق خود ارادیت سے دن دہاڑے محروم کردیا گیا ہے۔ صورتحال کو دوسرا رخ دینے کے لئے اسلام پسند اور لبرل کے الفاظ استعمال کئے گئے۔
یہ اصطلاحات ایسے ہی استعمال نہیں ہوجاتیں۔ اس کے پیچھے پوری فلاسفی ہوتی ہے۔ ایک مجرم کا ساتھ دینا کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا نام کسی مجرم گروہ کے ساتھ نتھی کیا جائے مگر جیسے ہی کسی مجرم کو کسی گروپ کا نام دیا جائے تو پھر اب وہ مجرم نہیں رہتا بلکہ اس گروپ کا ہیرو بن جاتا ہے۔جیسے کراچی میں گروہی لڑائی۔ کراچی میں مجرم کو مجرم نہیں کہا جارہا بلکہ اس کو بلوچ، سندھی ، پٹھان یا مہاجر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو لبرل کا نام دے دیا گیا اور مرسی کو اسلام پسند کا۔ جیسے ہی یہ گروپنگ میڈیا میں کی گئی اب دنیا بھر سے مرسی کے خلاف ان تمام حلقوں میں نرم گوشہ ختم ہوگیا جو پہلے ہی اسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی مہم کے زیر اثر اسلام کو دہشت گردی کا متبادل سمجھنے لگے ہیں۔
اب اسی میڈیا کے زیر اثر دنیا یہ بھول چکی ہے کہ مصر میں عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ دنیا کو نظر نہیں آرہا کہ روز قاہرہ میں عوام کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ اس کو تو بس یہ دکھا یا جارہا ہے کہ مصری فوج دنیا کو اسلامی دہشت گردوں سے بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ پوری دنیا کو یہ بھی معلوم نہیں کہ البرادی کے غنڈوں نے تحریر اسکوائر پر عصمت دری کی کون سی تحریر رقم کی۔ لوٹ مار کے کیاکیا کارنامے سرانجام دئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دنیا کو نہیں معلوم کہ قذافی کے بعد لیبیا کے عوام کی اور صدام کے بعد عراق کے عوام کی کیا حالت ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح دنیا کو نہیں معلوم کہ شام میں جہاد کے نام پر کیا قیامت ڈھائی جارہی ہے۔
معاملات اسی وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جب سفید کو سفید اور کالے کو کالا کہا جائے۔ مجرم کو مجرم اور غاصب کو غاصب کہا جائے۔ مرسی کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ اس پر اگلے کالم میں بات کریں گے مگر یہ سیدھی سی بات ہے کہ مرسی کو ہٹانے کا حق صرف اور صرف مصری عوام کو ہے۔ یہ مصری عوام کابنیادی حق ہے کہ وہ کس کو اپنا سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی عورت کو مغرب یہ حق دیتاہے کہ وہ برہنہ ہوکر سڑکوں پر ڈانس کرتی پھرے، اسی طرح اسی عورت یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ حجاب کر سکتی ہے۔ جس طرح کسی کو کلین شیو ہونے کا حق حاصل ہے اتنا ہی کسی شہری کو ڈاڑھی رکھنے کا بھی حق حاصل ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔مگر ہو کیا رہا ہے کہ ننگا ہونا اور کلین شیو ہونا جمہوریت ہے اور حجاب لینا اور ڈاڑھی رکھنا دہشت گردی۔ہمیں بھی سیدھی سی بات کرنی چاہئے کہ جنرل غاصب ہے اور منتخب صدر حق پر تھا۔
مصر میں یہ خونی تھیٹر کیوں سجایا گیا ہے اور اس کے لئے یہی وقت کیوں منتخب کیا گیا۔ اس پر گفتگو اکلے کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔


Responses

  1. Masood sb!
    I read about a dozen articles on it but did not make up my mind till I read yours
    Was waiting for your piece actually
    Fully agreed what you wrote
    Wait for the next piece

    LOve

    Date: Fri, 12 Jul 2013 19:11:42 +0000
    To: sdahsan@hotmail.com

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے