Posted by: Masood Amwar | اگست 2, 2013

ڈیرہ جیل پر حملہ اور چند سوالات

http://www.masoodanwar.com
anwar.masood@yahoo.com

مسعود انور

پنجاب سے متصل خیبر پختونخواہ کے سرحدی شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملے کو کئی روز گذر چکے ہیں مگر اب تک رننگ کمنٹری کے علاوہ کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ اتنا بڑا واقعہ کس طرح رونما ہوگیا۔ نہ تو حکومت ہی کچھ بتانے پر آمادہ ہے اور نہ ہی میڈیا اس پر حکومتی بیانات اور حزب مخالف کے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ بتانے پر راضی ہے۔ 29 جولائی کی شب دو سو کے قریب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملہ کردیا ۔ یہ حملہ آور ڈبل کیبن گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر سوارتھے اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں نے سب سے پہلے علاقے کی بجلی اڑائی ، اس کے بعد جیل پر تین اطراف سے راکٹوں اور بموں سے حملہ کردیا۔ حملے میں ان دہشت گردوں کو صرف بیرونی دیوار اڑانی پڑی جبکہ دیگر دو اندرونی دیواروں کے یا تو دروازے کھلے ہوئے تھے یا کھول دئے گئے تھے۔

یہ دہشت گرد میگا فون پر اپنے ساتھیوں کا نام بلند آواز میں پکارتے رہے۔ ساتھ ہی انہوں نے چار قیدیوں کو نشاندہی کے بعد ساتھ لے جانے کے بجائے وہیں موقعے پر موت کی سزا سنا دی۔ یہ تمام کارروائی کہیں سے جلدی میں نہیں کی گئی۔ یہ تمام دہشت گرد چار گھنٹے تک جیل میں اطمینان سے کارروائی کرتے رہے اور بعد ازاں تین سو کے قریب قیدیوں کو آزاد کروا کر کامیابی کے ساتھ اپنے ٹھکانے پر لوٹ گئے۔ ہاں ٹرافی کے طور پرایک لیڈی وارڈن گلاب بی بی کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس تمام کارروائی کے سرغنہ عدنان رشید کا نامعلوم مقام سے کہنا ہے کہ اس پوری کارروائی کی منصوبہ بندی ایک ماہ میں مکمل کی گئی اور اس پر ایک کروڑ روپے کے اخراجات آئے۔ یہ عدنان رشید وہی صاحب ہیں جنہیں گذشتہ برس پندرہ اپریل کو ایک ایسی ہی کارروائی میں بنوں جیل سے ان کے ساتھی چھڑا کر لے گئے تھے۔ عدنان رشید پاک فضائیہ کے سابق اہلکار ہیں اور بنوں جیل میں مشرف پر حملہ کیس میں مقید تھے۔

اس پوری کارروائی کے بعد پاک فوج نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرفیو نافذ کرکے سرچ آپریشن شروع کردیا۔ اطلاعات کے مطابق اب تک جو گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں ، ان میں سے پیشتر قیدیوں نے خود ہی اپنے آپ کو حکام کے حوالے کردیا ہے اور ان کا تعلق کسی بھی طور سے کسی عسکری ونگ سے نہیں ہے۔ تاحال ڈیرہ میں یہ کرفیو نافذ ہے جس کے باعث علاقے میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور لوگ سراسیمگی کے عالم میں ہیں۔

یہ تو وہ صورتحال ہے جو اخبارات میں رپورٹ ہوچکی ہے۔ اب ذرا اس پوری صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ دو سو سے زائد افراد جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے جس میں راکٹ، راکٹ لانچر، دیواروں کو دھماکے سے اڑانے والا بارودی مواد، خودکش جیکٹیں،دستی بم اور دیگر ہلکا اور بھاری اسلحہ و ایمونیشن شامل ہے، کے ساتھ شمالی وزیرستان سے صوبے کے آخری شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچتے ہیں۔ یہ تمام افراد 14 سے 25 ڈبل کیبن گاڑیوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں کے کانوائے کی صورت میں آئے تھے۔ راستے میں متعدد چیک پوسٹیں موجود ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر خاصہ دار بھی متعین ہیں اور فوجی بھی۔ جہاں قبائلی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان وغیرہ ، وہاں پر پولیس موجود ہے مگر اتنے بڑے کانوائے کو کسی ایک جگہ بھی روک کر نہیں پوچھا گیا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟

چلیں یہ سب پولیس کی وردیوں میں تھے تو بھی کاوٴنٹر چیکنگ تو کی جانے چاہئے تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ اس علاقے میں کارروائی پولیس نہیں کرتی اور فوج کرتی ہے۔ پھر قبائلی علاقے میں پولیس کی موجودگی چہ معنی دارد؟ یہ سب لوگ ایک طویل جلوس کی صورت میں چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کرکے ڈیرہ اسمٰعیل خان گئے اور ایک کامیاب کارروائی بھی کرڈالی۔ یہ کارروائی پلک جھپکتے میں مکمل نہیں ہوگئی۔ چار گھنٹے تک اطمینان کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک ایک ساتھی کو ڈھونڈھا، ساتھ لیا اور پھر دوبارہ شمالی وزیرستان کی طرف چل پڑے۔اب تو پورے جہاں کو پتہ چل چکا تھا کہ کیا واردات ہوچکی ہے۔ رات کے اندھیرے میں یہ طویل قافلہ پوری ہیڈ لائٹ جلائے پھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی راستوں پر پھر سے چار گھنٹے کا سفر کرکے بغیر بال بیکا ہوئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچ چکا تھا۔ راستے میں ایک مرتبہ پھر کسی چیک پوسٹ پر ان کو نہیں روکا گیا۔ فوج کیا کررہی تھی؟ اس نے بجائے راستے میں اس قافلے کو روکنے، اپنی اگلی چیک پوسٹوں کو آگاہ کرنے، ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بجائے لکیر پیٹنے کو ترجیح دی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرفیولگا دیا۔

عدنان رشید نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون پر مزے سے بات کرتے ہیں مگر کوئی بھی ان کو ٹریس نہیں کرپاتا۔ یہ بھی جان ریمبو کی طرح کی کیا زبردست فلمی کہانی ہے کہ ساری سرکار، ساری پولیس، ساری فوج سب کچھ نہیں کرسکی ۔ دو سو سے زائد افراد سکون سے نکل گئے۔ اب میڈیا کو دیکھیں۔ایبٹ آباد کے واقعہ کی طرح میڈیا یہاں پر بھی غائب ہے۔ صرف سرکاری بیانات ہیں یا پھر طالبان کے ترجمان کے بیانات ہیں۔نہ کوئی عینی شہادت ہے، نہ ہی واقعاتی رپورٹنگ اور نہ ہی واقعہ کا پوسٹ مارٹم۔

ابھی ہم اس سوال پر کوئی بات نہیں کررہے کہ ان حملہ آوروں کے پاس اتنی ڈھیر ساری ڈبل کیبن گاڑیاں، بھاری موٹر سائیکلیں، جدید ترین اسلحہ اور ایک کروڑ روپیہ کہاں سے آیا اور اس سے بھی بڑھ کر کہ یہ ایک کروڑ روپیہ خرچ کہاں پر کیا گیا۔ یہ روپیہ گاڑیاں اور اسلحہ خریدنے پر تو خرچ ہو نہیں سکتا کیوں کہ یہ ان کے پاس پہلے سے ہی وافر مقدار میں ان کے سرپرستوں نے مہیا کیا ہوا ہے۔ تو پھر کیا یہ روپیہ سرکاری عمال کو رشوت دینے میں خرچ کیا گیا؟ اس روپے کی فراہمی اور استعمال ایک اہم نکتہ ہے۔

اس وقت میرا بنیادی سوال انتظامیہ کا اس کارروائی پر ردعمل ہے جو کہ دیکھنے میں انتہائی معصومانہ خطا لگتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب شمالی وزیرستان کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ کہیں پر بھی کارروائی کے لئے پہلے چارج شیٹ تیار کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد کارروائی شروع کردی جاتی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس علاقے میں کوئی بڑا معاملہ ہونے جارہا ہے۔ معاملہ عالمی کھلاڑیوں اور ان کے کھیل کا نہیں ہے بلکہ زیادہ تشویشناک بات ان کے پاکستانی ایجنٹوں کی ہے۔ ایک دفعہ پھر سرکاری پھرتیاں دیکھئے، اس پر میڈیا کے کردار کا جائزہ لیجئے اور عالمی کھلاڑیوں کی کھیل پر گرفت پر عش عش کیجئے۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ہشیار باش۔


Responses

  1. So beautiful Masood sb

    State finished now

    LOve

    Date: Fri, 2 Aug 2013 04:45:13 +0000
    To: sdahsan@hotmail.com

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے