Posted by: Masood Amwar | اگست 12, 2013

کرائے کے فوجی

http://www.masoodanwar.com
masoodsahab@yahoo.com

مسعود انور

چودہویں صدی میں دو چیزوں سے نسل انسانی شدید خطرات سے دوچار تھی ان میں سے ایک تھی طاعون کی وباء جبکہ دوسری کا نام تھا جنگ کا تجارتی پیمانے پر استعمال۔ کرائے کے فوجی یوں تو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں مگر انہوں نے زور بطور تجارتی جنس شاہ برطانیہ ایڈورڈ سوئم کے دور میں پکڑا۔ بیس سال جنگ میں مصروف رہنے کے بعد ایڈورڈ سوئم نے 1360 میں امن کے معاہدے پر دستخط کے بعد اپنے سپاہیوں کو جنگ ختم کرنے اور اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کا حکم صادر کیا تو ایک عجیب و غریب سی صورتحال سامنے آئی وہ یہ کہ ان سپاہیوں میں سے بیشتر کا کوئی گھر ہی نہیں تھا۔ ان کا صرف ایک کام تھا اور وہ جنگ لڑنا اور پیسہ بٹورنا۔

جنگ کے ختم ہوتے ہی یہ سپاہی نہ صرف بے روزگار ہوگئے بلکہ ان کے لئے طعام و رہائش سمیت نئے مسائل نے سر اٹھالیا۔ اس کا ایک ہی آسان حل تھا جو انہوں نے اختیار کرلیا وہ تھا کرائے کی فوج کا کردار۔ دیکھتے ہی دیکھتے فوجیوں کی پرائیویٹ کمپنیاں وجود میں آگئیں جو انگلینڈ سے لے کر فرانس تک حکمرانی کررہی تھیں۔ ان کے مقاصد بہت واضح تھے۔ لوٹ مار، قتل و غارگری اور آبرو ریزی۔

ان کے مختلف سائز تھے تاہم ان میں سب سے بڑی کمپنی سولہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی جو اس وقت کی کسی قومی فوج سے بھی بڑی تعداد تھی۔ اس کمپنی کے دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ اس نے اس وقت کے پوپ کو تاوان کے لئے اغوا کرلیا تو پوپ کی بازیابی تاوان کی ادائیگی کے بغیر ممکن نہ ہوسکی تھی۔ پوپ نے ان کرائے کے غنڈوں سے کام لینے کا سوچا اور اس کو اپنے اطالوی دشمنوں وسکونٹی اور ران میلان کی سرکوبی کے لئے آمادہ کرلیا۔ یہ کرائے کے فوجی مارکوئی آف مون فراٹو کی سربراہی میں اطالیہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس کے بعد سے جنگ ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہوگیا۔کرائے کے فوجیوں پر مبنی کمپنی کا مطلب تھا لا متناہی منافع۔ یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس کاروبار میں راتوں رات اپنی دولت کو کئی گنا ضرب دے رہے تھے ان کے لئے جنگ کا خاتمہ ایک احمقانہ سی تجویز تھی۔ یہ ایک آسیبی دور کا آغاز تھا۔ ان کرائے کے فوجیوں کے بریگیڈ پورے یورپ کو روندتے پھررہے تھے۔ قتل و غارت گری کا جن بوتل سے باہر آچکا تھا اور اس کو بند کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ تمام یوروپی ریاستیں ان کرائے کے جنگجووٴں کی خدمات ٹیکس گذارروں کی رقم کی ادائیگی کر کے حاصل کررہی تھیں اور ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی تھی۔

اس بات کو تقریبا ساڑھے چھ سو برس کا عرصہ گذرچکا ہے۔ اس عرصہ میں یوں تو پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکا ہے۔ یہ امریکہ میں جارج ڈبلیو بش کا دور ہے جب اس نے عراق کی جنگ کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے کئے کنٹریکٹرز کی بھرتی کی گئی۔ اس میں سے سب بڑی کرائے کی فوج کا نام تھا بلیک واٹر جس کو بعد ازاں ژی کا نام دیا گیا۔اور اب اس کا نیا نام اکیڈمی رکھ دیا گیا ہے۔ 2003 میں ژی کو بلا کسی ٹینڈر کے عراق میں پال برنر کی عبوری حکومت کی ذمہ داری سونپ دی گئی جس کے لئے اس کو 27 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی گئی۔ اسی طرح اس کو عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں سیکورٹی کی فراہمی کے نام پر اب تک 320 ملین ڈالروں کی ادائیگی کی جاچکی ہے۔ اب اسی کمپنی کو رواں برس افغانستان میں سیکورٹی کی فراہمی کے لئے 250 ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ یہ صرف ایک کمپنی کا تذکرہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ کتنا منافع بخش کاروبار ہے۔

امریکہ اس وقت اپنی مجموعی قومی پیداوار 4.7 فیصد دفاعی بجٹ پر خرچ کررہا ہے جبکہ برطانیہ ڈھائی فیصد خرچ کررہا ہے جو کہ 57 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ آسٹریلیا کا یہ خرچ بیس ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ اس کی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد ہے۔ چودھویں صدی کی اطالوی ریاستوں کے شہریوں کی طرح امریکہ، آسٹریلیا اور یوروپی ممالک کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ انتتہائی کامیابی سے ان کنٹریکٹروں کی جیب میں منتقل ہورہا ہے۔ پہلے میں اور اب میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ پہلے سپاہی اس منافع کا براہ رست حصہ دار ہوتا تھا۔ اگر ایک ریاست سے بات نہیں بنی تو اس کی دشمن ریاست کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ جبکہ اب سپاہی ایک تنخواہ دار غلام ہے اور یہ کنٹریکٹرز ہیں گولہ بارود اور ہتھیار بنانے والی بڑی کمپنیوں کے مالکان۔

1989 میں ان ہتھیار بنانے والی کمپنیوں نے صدام حسین کا شکریہ ادا کیا تھا جس کی بناء پر ان کی صنعت کو سرد جنگ کئے خاتمہ کے بعد ایک نیا اچھال ملا تھا۔ ان کنٹریکٹرز کو ایک دشمن چاہئے جو صدام کی صورت میں ان کو مل چکا تھا۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی ایک جھوٹ تھا جس کو جواز بنا کر عراق پر فوج کشی کی گئی۔ مگر کسی نے اس جھوٹ گھڑنے والوں کا گریبان نہ پکڑا۔

اب دنیا میں پھر ایک نئے دشمن کی ضرورت ہے تاکہ ان کنٹریکٹرز کا روزگار نہ ختم ہوسکے۔ یہ نیا دشمن ایران کی صورت میں تراشا گیا ہے۔ ان کا تمام بھونپو میڈیا چیخ رہا ہے اور اس نے دنیا کو سر پر اٹھالیا ہے کہ ایران نیوکلئر ہتھیاروں کو بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ کرائے کے فوجیوں کی ایک اور غیر رسمی شکل اور بھی ہے ۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔

امریکہ یومیہ چار ارب ڈالر بینکوں سے قرض لیتا ہے اور یہ تمام کی تمام رقم دفاع کے نام پر ان کنٹریکٹرز کی جیبوں میں گئے ۔اگر یہ رقم جنگ میں استعمال نہ ہوتی تو آج نہ امریکہ کساد بازاری کا شکار ہوتا اور نہ ہی روزانہ سیکڑوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ و یورپ کے سیاستداں یا تو براہ راست ان کنٹریکٹروں یا دفاعی صنعت سے وابستہ ہیں یا پھر ان کے ایجنٹ۔ ان کا پیٹ ہر وقت ہل من مزید کی پکار کرتا رہتا ہے۔ یہ جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آچکا ہے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔


Responses

  1. Appreciate your knowledge Masood sb

    Date: Mon, 12 Aug 2013 06:08:49 +0000
    To: sdahsan@hotmail.com

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے