Posted by: Masood Amwar | اپریل 10, 2018

عرب لیگ کا اجلاس

 

Arab Leagueمسعود انور

www.masoodanwar.com

hellomasood@gmail.com

 

عرب لیگ کا اجلاس 15 اپریل کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ہوگا ۔ یہ اجلاس ہونا تو مارچ میں تھا مگر مصر میں ہونے والے انتخابات اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ یورپ و امریکا کے باعث ملتوی کردیا گیا تھا ۔ اس اجلاس کی اہم ترین بات قطر کی شرکت ہے ۔ قطر کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات و مصر نے مقاطعہ کیا ہوا ہے تاہم 5 اپریل کو قطر کو بھی شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا ہے جو اس نے قبول کرلیا ہے ۔ عرب لیگ کی تنظیم کا قیام 1945 میں عمل میں آیا تھا اور اس کے ارکان کی تعداد 22 ہے جس میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، یمن ، مصر، بحرین ، عراق ، اردن ، کویت ، عمان ، تنظیم آزادی فلسطین ، قطر، شام، لبنان ، الجزائر، افریقی جزائر پر مشتمل الاتحاد القمری ، جبوتی ، لیبیا ، مراکش ، ماریطانیہ ، صومالیہ ، سوڈان اور تیونس شامل ہیں ۔ ان میں سے شام کی رکنیت معطل ہے ۔ عرب لیگ کے ان سارے رکن ممالک میں سے قطر اور شام کے سوا سارے کے سارے ممالک کی حکومتیں سعودی عرب کی اتحادی ہیں ۔ گو کہ سوڈان نے حال میں ترکی کو فوجی اڈا بنانے کے لیے اپنا ایک جزیرہ سواکن دے دیا ہے مگر یمن کے محاذ پر لڑنے کے لیے اسی سوڈان نے سعودی عرب کو اپنے چھ ہزار عساکر بھی کرائے کی فوج کے طور پر دیے ہوئے ہیں ۔ جس کے بدلے میں سعودی عرب نے سوڈان کی مالی امداد کے علاوہ اس پر عالمی پابندیاں نرم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

کویت نے گزشتہ برس دسمبر میں خلیج تعاون کونسل کا ایک سربراہ اجلاس بلا کر سعودی عرب اور قطر کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے لیے کوشش کی تھی جسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سربراہوں کے بجائے کم درجے کے وفود بھیج کر ناکام بنا دیا تھا ۔ ارکان کی عدم سنجیدگی کی بناء پر یہ اجلاس ایک دن ہی میں ختم کردیا گیا تھا ۔ س کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فورم پر قطر اور سعودی عرب اکٹھا ہوں گے ۔ تاہم اس اجلاس میں سعودی عرب اور قطر کے مابین کسی بریک تھرو کی امید نہیں ہے ۔ قطر نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب اور اتحادیوں کی جانب سے قطر کا مقاطعہ یا خلیجی بحران عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے پر نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ قطر کی جانب سے کس درجے کا وفد اس اجلاس میں شرکت کرے گا ۔ تاہم قرائین بتاتے ہیں ہیں کہ قطر سے نچلے درجے کا وفد ہی اس اجلاس میں شرکت کرے گا ۔

 عرب لیگ کا ہونے والا یہ اجلاس کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ترکی ایران اتحاد سعودی عرب کا گھیراومکمل کرچکے ہیں ۔ جبوتی میں سلامتی کونسل کے سارے مستقل ارکان کے علاوہ جاپان اور ترکی کے بھی فوجی اڈے موجود ہیں ۔ اس کے برابر صومالیہ میں بھی ترکی موجود ہے جبکہ جبوتی سے ذرا اور آگے سوڈان کے ایک اور جزیرے میں بھی ترکی فوجی اڈا بنا رہا ہے ۔ اس طرح بحیرہ احمر میں سعودی عرب کے دونوں جانب ترکی کی فوجیں موجود ہیں ۔ سعودی عرب کا دوسرا کنارہ خلیج فارس پر ہے جہاں پر ایران موجود ہے ۔ سعودی عرب کے شمال میں اردن ، عراق اور کویت ہیں تو جنوب مشرق میں یمن واقع ہے ۔ سعودی عرب جزیرہ نما ہے اور اس کی سرحدوں کا بیشتر حصہ ساحلی ہے ۔ سعودی عرب نے گزشتہ دو برسوں میں جنگی سازو سامان کی خریداری پر بھاری رقم خرچ کی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک کیے گئے معاہدوں کی یہ رقم ایک کھرب ڈالرتک پہنچ چکی ہے ۔ تاہم اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے امریکی اور یورپی فوجی مشیروں نے کمال مہربانی سے یہ ساری رقم صرف اور صرف زمینی اور فضائی فوج تک محدود رکھی ہے ۔ دو تہائی سے زاید سرحد سمندری ہونے کے باوجود سعودی عرب کی بحریہ کی حالت ناقابل ذکر ہے اور وہ اپنے بحری دفاع کے لیے پاکستانی بحریہ پر انحصار کرتا ہے ۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ایران ترکی اتحاد کی جانب سے سعودی عرب کے محاصرے کی صورت میں پاکستان شیر کا ساتھ دیتا ہے یا شکاری کا ۔ دوسری صورت میں سعودی عرب کو امریکا اور اتحادیوں پر انحصار کرنا ہوگا ۔ اس کا مطلب ہوگا شکاری سے ہی رحم کی بھیک مانگنا ۔

ایسی صورتحال میں کہ حوثی سعودی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنارہے ہوں اور ساری سعودی بندرگاہیں محاصرے میں ہوں ، سعودی عرب کے لیے سخت پیغام ہے مگر وہ امریکی ، اسرائیلی اور یورپی اتحادیوں کی یقین دہانیوں پر ریلیکس ہے ۔ عرب لیگ کا گزشتہ اجلاس بھی کسی بریک تھرو کے بغیر ختم ہوا تھا اور عرب لیگ کسی بھی ایک نکتے پر واضح اور مشترکہ موقف نہیں اپنا سکی تھی ۔ اس مرتبہ زیادہ مشکل حالات ہیں ۔ سعودی عرب اسرائیل ہنی مون جاری ہے ۔ حماس کے خلاف سعودی موقف بھی سامنے آچکا ہے اور اسرائیل کی طرح سعودی عرب بھی حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے ۔ اسی عرب لیگ میں مصر کا سیسی بھی موجود ہے جو اسرائیل کا یورپ سے زیادہ حامی ہے ۔ دیگر ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں ۔ ایسے میں حماس کے پرامن احتجاج پر اسرائیلی پرتشدد حملوں جس میں درجنوں فلسطینی نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں ، کے بارے میں عرب لیگ مسلم دنیا سے زیادہ اسرائیلی موقف کی حمایت کرتی نظر آئے گی ۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر ایک کمزور سی قرارداد اور بس ۔

تاہم یمن میں ہونے والے معاملات ، یمن سے سعودی عرب پر میزائیلوں کے نشانے ، بحیرہ احمر میں سعودی آئل ٹینکروں پر حملے ضرور بحث کا حصہ ہوں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب لیگ کا اجلاس کچھ اور نہیں صرف اور صرف ایران پر فوکس کیے ہوئے ہوگا ۔ معاملات کو دوبارہ سے دیکھیں ۔ ہانکا لگانے والے شکار کو گھیر کر کس طرف لے جارہے ہیں ۔ ایران کو ہلا شیری جاری ہے ۔ شام میں فتح کے بعد ایران اور اس کے جنگجو حزب اللہ اور انصار اللہ کامیابی کے سحر میں اور overconfident ہیں ۔ ترکی اپنے آپ کو عثمانی دور میں محسوس کر رہا ہے ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ایران کا ہوّا دکھا کر ہر احمقانہ فیصلہ کروایا جارہا ہے ۔ ایسے میں یہ پوری صورتحال صرف اور صرف خلیج میں ایک خوفناک جنگ کی طرف جارہی ہے جس میں نقصان تو پوری مسلم دنیا کا ہوگا ہی مگر اس میں قربانی کا بکرا سعودی عرب ہی ہوگا ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔


Responses

  1. It happened today

    Qatar was out

    The world is going towards a disaster of course

    ________________________________

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے