Posted by: Masood Amwar | جولائی 15, 2013

کیا اب انڈونیشیا اور ملائیشیا کی باری ہے؟

http://www.masoodanwar.com
anwar.masood@yahoo.com
مسعود انور

برما میں اراکانی مسلمانوں پر ابتلاء ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔ یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے۔ برسوں سے ان کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے مگر دنیا بھر کے مسلمان ہیں کہ ان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ برما کی سرکاری افواج اور بدھوں کے بھکشووٴں پر مشتمل مجرم ان لاچار مسلمانوں کا شکار یوں کھیل رہے ہیں جیسے بھیڑئے بھیڑوں کا کرتے ہیں۔ یہ مسلمان ان بھیڑوں کے مقابلے میں مزید لاچار اس لئے ہیں کہ بھیڑوں کو تو بھیڑیوں سے مقابلے کا حق پھر بھی حاصل ہے۔ اگر یہ مسلمان اپنا تحفظ کرنے کی کوشش کریں تو برما کا قانون حرکت میں آجاتا ہے اور جیل و پھانسی کو کوٹھری ان کا مقدر ٹھیرتی ہے۔
نہ تو دنیا کی کسی سول سوسائٹی کو یہ بے چارے روہنگیا مسلمان نظر آتے ہیں اور نہ ہی کسی جمہوریت کے چمپئن کو برما کے ڈکٹیٹر کی یہ خوں ریزی نظر آتی ہے۔ مزید افسوس تو اس بات کا ہے کہ برما کے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی اس ظلم و خوں ریزی پر آنکھ بند کئے بیٹھے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برما کے مسلمان کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں جس کی خبر نہ تو ہمسایہ ممالک تک ہی پہنچ رہی ہے اور نہ دنیا میں کسی اور مسلمان تک۔ اتنا اہم معاملہ ہے اور دنیا کا ایک بھی ملک اس کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے لئے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی دنیا کا مین اسٹریم میڈیا اس کو کوریج دینے پر راضی ہے۔ جتنے روہنگیا مسلمان برمی فوج اور بھکشووٴں کے استبداد کا شکار ہوئے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں اگر کوئی جانور بھی خوں ریزی کا شکار ہوتا چاہے وجہ قدرتی ہی کیوں نہ ہوتی تو اب تک پوری دنیا میں بھونچال آچکا ہوتا۔ مگر شاباش ہے حضرت انسان پر کہ اپنے ہی بھائی بندوں کا شکار اسے محبوب ہے اور مزید شاباش ہے پوری دنیا کے لوگوں پر کہ اس پر یوں دم سادھے ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اس وقت تا بہ خاک کاشغر مسلمان مجموعی طور پر ابتلاء و آزمائش کا شکار ہیں۔ چاہے یورپ ہو یا امریکا، آسٹریلیا ہو یا روس اور چاہے یہ خود مسلم ممالک ہی کیوں نہ ہوں، اس وقت ایک ایسی آزمائش سے گذر رہے ہیں جس کی مثال اس سے قبل کہیں نہیں ملتی۔ ایسے میں مشرق بعید کے چند ممالک ایسے بچے ہیں جہاں پر فی الحال مسلمان امن، چین اور سکون سے رہ رہے ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کو بدامنی کے سمندر میں امن و سکون کے جزیرے قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان ممالک کا سکون بھی گیا۔اس اندیشے کی وجہ مجھے اپنی ای میل میں ملنے والی وہ تصویر ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے بنگلہ دیشی اور انڈونیشین پر مشتمل ایک تنظیم تشکیل سے دے لی ہے جو روہنگیا کے مسلمانوں کا دفاع کرے گی۔ اس تصویر میں فوجی لباس پہنے سیکڑوں افراد کو اسلحہ اٹھائے فوجی ٹریننگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی تصویر کے کیپشیئن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نئی تنظیم نے اپنی پہلی کارروائی میں سترہ برمی فوجیوں کو موت کی نیند سلادیا اور تین بھکشووٴں کو ان کے جرم کی پاداش میں ذبح کردیا۔تصویر میں اس جنگی تربیت پانے والوں کے کیمپ کا مقام نہیں بتایا گیا ہے مگر جس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تربیت جاری ہے ۔ اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ برما کے علاوہ کوئی اور مقام ہے ۔ شائد بنگلہ دیش یا پھر انڈونیشیا کا کوئی علاقہ۔
بادی النظر میں یہ ایک مسلمان بلکہ ایک انسان کے لئے بھی ایک خوش خبری ہے۔ چلئے کوئی تو سلسلہ پیدا ہوا کہ ان روہنگیا کے مسلمانوں کے دفاع کی کوئی سبیل نکلی۔ کوئی تو اٹھا جس نے ان لاچار مسلمانوں کو دلاسہ دیا کہ تم اکیلے نہیں ہو۔ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا اور اس دنیامیں جینے کا یہی طریقہ ہے کہ اگر کتے کو پتھر کھینچ کے نہ مارا جائے تو وہ انسان پر حملہ کردیتا ہے۔ اگر سب کچھ ایسا ہی ہوتا تو میں بھی یقینا خوش ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
طالبان اور پھر اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی پیدائش کے خدو خال پر غور کیجئے۔ ان کی کارروائیوں کو دیکھئے۔ ان کو کس نے جنم دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہیں اور نصیر اللہ بابر بھی اب اس دار فانی کو چھوڑ چکے مگر ابھی بھی بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کی پیدائش میں شریک عمل تھے۔وہ اس کی تاریخ اور جغرافیہ سب بتا سکتے ہیں۔ ان طالبان کو خاص طور سے تحریک طالبان پاکستان کو اب تک کون پال پوس رہا ہے اور کون ان کو کروڑوں روپے ماہانہ نقد فراہم کرتا ہے کہ یہ اپنی ملیشیا کی تنخواہیں بروقت ادا کرسکیں۔ ان کو لامحدود اسلحہ و بارودکی سپلائی کہاں سے جاری ہے۔ اس میں سے کچھ بھی خفیہ نہیں ہے۔ ہاں لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ سی آئی ا ے کی پیداوار ہیں اور ان کوبھارتی خفیہ ایجنسی را کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اس پورے خطہ میں ایک مرتبہ بھی بھارتی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور ان کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان اور مساجد ہیں یا پاکستانی افواج ۔
اب مذکورہ تصویر کو دیکھنے کے بعد پھر ذہن میں سوال ابھر رہا ہے کہ اس نئی تنظیم کو انفرا اسٹرکچر کی فراہمی کے لئے زمین کہاں سے ملی، نئی فوجی وردیاں، اسلحہ و اخراجات پورا کرنے کے لئے رقوم کہاں سے ملیں۔ اس کا ذریعہ یقینا وہی ہے جو تحریک طالبان پاکستان کا ہے۔ یعنی بین الاقوامی بینکار جو اس دنیا پر ایک بین الاقوامی شیطانی حکومت یعنی ون ورلڈ کے قیام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اب سازش کی کڑیاں کچھ جڑنی شروع ہوئی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر مسلم امہ سمیت پوری دنیا کیوں سوتی رہی۔ان روہنگیا مسلمانوں اور پوری دنیا میں غم و غصہ کا وہ لاوا پھٹ چکا ہے کہ اب وہ کچھ بھی کرنے پر تیار ہیں اور پھر یہ تو دام ہم رنگ زمیں ہے۔ اس طرح ان بین الاقوامی بینکاروں کی جنگی مشین کو انسانی کندھا بہ آسانی مل گیا ہے۔ باقی کام تو انتہائی سادہ سا مکینیکی عمل ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کا امن تباہ کرنے کے اگلے مرحلے میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا ور ملائیشیا کو تہہ وبالا کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ ہے کہ یہ عملا پیراسائیٹ ہیں جو اپنے ہی میزبان کو جس سے یہ غذا حاصل کرتے ہیں، اسی کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔ اب ہم آسانی سے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی دادرسی تو کیا ہوگی مگر اب مشرق بعید کے ممالک کا امن و سکون بھی گیا اور وہ بھی اب ایک نیا پاکستان، شام و عراق بننے جارہے ہیں۔اس فوجی ملیشیا کو انسانی ایندھن کی فراہمی کے لئے دنیا اسی طرح سوتی رہے گی، برمی افواج اسی طرح ظلم و ستم کرتی رہیں گی اور شروع شروع میں ان برمی افواج کو اس نئی تحریک طالبان سے ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر نتیجہ کیا نکلے گا۔ وہی جس کا میں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے یعنی اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل تو کیا حل ہوں گے ، دیگر ممالک میں طالبان کا یہ سرطان سی آئی اے اور را کی مدد سے پھیل چکا ہوگا۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔


Responses

  1. محترم جناب مسعود انور صاحب
    ارکان(برما) کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے مسائل سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے پر ارکان ویلفیئر فاؤنڈیشن آپ کا شکر گذار ہے۔۔
    والسلام۔

    پسند کریں


تبصرہ کریں

زمرے